فلسطینی صحافی نے برطانوی ٹی وی میزبان کو الفاظ کا چناؤ درست کرنے کا سبق دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اسرائیل حماس جنگ نہیں، فلسطینیوں کی نسل کشی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اسرائیلی حملوں سے صرف اس کے اپنے 30 عزیز اور بہترین دوست صحافی مارے جا چکے ہیں، جو لوگ حماس کے 7 اکتوبر حملے کی بات کرتے ہیں، وہ مقبوضہ بیت المقدس پر اسرائیل کی آئے روز چڑھائی پر خاموش کیوں ہیں۔
فلسطینی صحافی کا کہنا تھا کہ اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی لڑکیوں سے زیادتی پر کیوں نہیں بولتے، فلسطینی جیلوں میں قید بچے انہیں کیوں نظر نہیں آتے۔
صحافی نے بتایا کہ وہ کبھی غزہ میں رہتی تھی، اسرائیلی حملوں سے اس نے لوگوں کے اعضا ٹکڑے ٹکڑے ہوتے دیکھے تو 14 برس کی عمر میں غزہ چھوڑنے پر مجبور ہوئی۔
صحافی نے بتایا کہ ایک عرصے تک نفسیاتی علاج کرانا پڑا تاکہ اسرائیلی درندگی بھلاسکے۔
انہوں نے کہا کہ ساڑھے چار ہزار فلسطینی مرے نہیں بلکہ اسرائیل کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔