عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے ایک اور مطالبہ کرتے ہوئے کسانوں سے بجٹ سبسڈی واپس لینے کا کہہ دیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق آئی ایم ایف وفد سے پاکستانی حکام کے مذاکرات جاری ہیں جہاں آئی ایم ایف مشن سے تکنیکی سطح کے مذاکرات میں وزارت توانائی اور وزارت خزانہ حکام کی اہم میٹنگ ہوئی، اس دوران آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا کہ ٹیوب ویل صارفین کیلئے بجٹ سبسڈی ختم کی جائے، پاکستان زرعی شعبے کے لئے سولرائزیشن کا نظام متعارف کروائے، ٹیوب ویل سولرائزیشن اسکیم پر 90 ارب خرچ ہوں گے جو منظوری کے لئے کابینہ کو پیش کی جائے، 90 ارب روپے میں 30 ارب وفاق، 30 ارب صوبے اور 30 ارب ٹیوب ویل صارفین دیں گے۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات کے دوران ٹیوب ویل سولرائزیشن اسکیم کو رواں مالی سال شروع کرنے پر بات چیت ہوئی، وزارت توانائی نے وزارت خزانہ، آئی ایم ایف اور عالمی بینک سے ٹیوب ویل سولرائزیشن اسکیم پر مشاورت کی، اس موقع پر آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا کہ اسکیم پر عملدرآمد سے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ٹیوب ویلز صارفین کو بجلی استعمال کی مد میں سبسڈی نہ دی جائے، کوسٹ ریکورننگ ٹیرف بہتری کیلئے نیپرا سہ ماہی ایڈجسٹمنٹس، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹس بروقت نوٹیفیکیشن کر رہا ہے، آئی ایم ایف نے ڈسکوز، وزارت توانائی اور نیپرا کے درمیان تعاون اور فیصلوں پر جلد عملدرآمد کی ہدایت کی ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ مذاکرات میں پاکستان کی جانب سے کامیاب ڈیٹا شیئرنگ کی گئی، وزارت خزانہ نے جولائی تا ستمبر تک معاشی اعداد و شمار پیش کیے تو آئی ایم ایف نے وزارت خزانہ کے ڈیٹا سے اتفاق کیا اور مالیاتی خسارہ اور معاشی ترقی کی شرح کے ڈیٹا پر اطمینان کا اظہار کیا، ٹیکس آمدن اور نان ٹیکس آمدن کے اعدادوشمار کو بھی تسلی بخش قرار دیا گیا۔ آئی ایم ایف وفد کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ ستمبر 23 میں معیشت کا حجم ایک لاکھ 5 ہزار 817 ارب روپے ہوگیا، جولائی تا ستمبر مالیاتی خسارہ 2 ہزار 525 ارب کے ہدف سے کم کرکے 964 ارب روپے کیا گیا، جولائی تا ستمبر وفاق نے محض 40 ارب روپے ترقیاتی بجٹ خرچ کیا، جولائی تا ستمبر ٹیکس آمدن میں 25فیصد اضافے پر آئی ایم ایف نے ایف بی آر کو سراہا۔ بریفنگ میں مزید کہا گیا کہ جولائی تا ستمبر ٹیکس آمدن 2ہزار 042 ارب روپے رہی، جولائی تا ستمبر نان ٹیکس آمدن کی مد میں 453 ارب روپے جمع ہوئے، جولائی تا ستمبر پٹرولیم لیوی کی مد میں 222 ارب روپے جمع ہونے پر آئی ایم ایف مطمئن ہوگیا، اس کے علاوہ اکاؤنٹ خسارے محدود کرکے اس میں 2 ارب ڈالر کمی کی کوششوں کی تعریف کی گئی۔