امداد کی عدم موجودگی اور بجلی کی بندش کی وجہ سے غزہ کی پٹی کے جنوب میں واقع رفح میں حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں اور بے گھر افراد اب دال لینے کے لیے قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے ایک ویڈیو کلپ میں دکھایا گیا ہے کہ پھول جیسے بچے اپنی بھوک مٹانے کے لیے دال کی پلیٹ کی خاطر لمبی قطار میں کھڑے ہیں۔ یہ بچے اور ان کے خاندان ایک ماہ سے جنگ کے بدترین عذاب میں ہیں۔ شہریوں کےلیے محاصرے اور بمباری میں زندگی اور بھی مشکل ہوگئی ہے اور موت ہر وقت ان کے سروں پر منڈ لا رہی ہے۔غزہ پر بمباری کے نتیجے میں 10,000 سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں جن میں 4,000 سے زائد بچے بھی شامل ہیں۔ خونریزی کی تازہ ترین لہر 7 اکتوبر کو غزہ سے جنوبی اسرائیل میں حماس کے عسکریت پسندوں کی طرف سے کیے گئے ایک حیرت انگیز سرحد پار حملے کے ساتھ شروع ہوئی، جس میں تقریباً 1,400 افراد ہلاک اور 240 سے زیادہ قیدی بنا لیے گئے۔اسرائیلی فوج نے جواب میں حماس کو کچلنے کا عزم کیا ہے اور اس مقصد کے لیے غزہ پر بدترین بمباری کرکے اسے تاخت وتاراج کردیا ہے۔اس جنگ نے غزہ کے عام شہرہوں کو ایک عذاب میں ڈال رکھا ہے۔ ان کے پاس کھانے کو روٹی اور پینے کو پانی نہیں اور وہ پیاس بجھانے کے لیے سمندر کا کھارا پانی پینے پر مجبور ہیں۔کیمروں نے بمباری کے نتیجے میں گھروں کے منہدم ہونے کے بعد بے گھر ہونے والے خاندانوں کے اپنے کاروں کو پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرنے کے مناظر بھی ریکارڈ کیے ہیں۔ اسرائیلی بمباری سے ان کے گھر متاثر ہونے کے بعد بہت سے لوگوں نے اپنی گاڑیوں کو گھروں میں تبدیل کر دیا اور ہسپتال اور سکول بے گھر ہونے والوں سے گنجائش سےزیادہ بھر چکے ہیں۔غزہ کی پٹی پر ایک ماہ سے مسلسل اسرائیلی بمباری نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے اور اقوام متحدہ کے مطابق 15 لاکھ افراد بے گھر ہوئے ہیں۔لڑائی روکنے کے لیے بین الاقوامی دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے مگر اسرائیلی کسی صورت میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کے لیے تیار نہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے کہا ہے کہ محصور علاقہ "بچوں کے قبرستان” میں تبدیل ہو رہا ہے۔