امریکی صدر جو بائیڈن نے منگل کو کہا ہے کہ وہ حماس کے ہاں یرغمال بنائے گئے قیدیوں کی رہائی کو یقینی بنانے کے لیے روزانہ بات چیت کر رہے ہیں۔
انہوں نے وائٹ ہاؤس میں مزید کہا کہ "تھوڑا صبر کرو ہم آ رہے ہیں”۔ انہوں نے یہ بات صحافیوں کی طرف سے یرغمالیوں کے اہل خانہ کےحوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کی۔بائیڈن نے کہا کہ وہ یرغمالیوں کی رہائی کے بارے میں بات چیت میں شامل فریقین سے ہر روز بات کرتے ہیں، لیکن وہ تفصیلات بتانا نہیں چاہتے۔اتوار کو وائٹ ہاؤس کے ایک بیان میں بائیڈن نے حماس کی طرف سے قیدیوں کی حراست کی "غیر واضح طور پر” مذمت کی، جن میں بہت سے چھوٹے بچے بھی شامل ہیں، جن میں ایک 3 سالہ امریکی بچہ بھی شامل ہے جس کے والدین 7 اکتوبر کو تحریک کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔غزہ کی پٹی میں حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے اسرائیلیوں کے اہل خانہ نے منگل کو تل ابیب سے یروشلم تک پانچ روزہ مارچ کا آغاز کیا تاکہ حکومت ان کی رہائی کے لیے مزید کوششیں کرے۔واشنگٹن میں غزہ میں اسرائیل کی فوجی مہم کے خلاف امریکا اور دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کے بعد منگل کو "اسرائیل کے لیے مارچ” منعقد کرنے کا اعلان کیا۔غزہ پر اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں 11,000 سے زیادہ فلسطینی شہید ہوئے، جن میں سے تقریباً 40 فیصد بچے تھے ہیں۔خبر رساں ایجنسی رائیٹرز نے گذشتہ ہفتے رپورٹ کیا تھا کہ قطر جہاں حماس کے متعدد سیاسی رہ نما موجود ہیں، قیدیوں کے حوالے سے حماس اور اسرائیلی حکام کے درمیان ثالثی کی کوششوں کی قیادت کر رہا ہے۔اسرائیلی حکام نے بتایا کہ حماس کے جنگجوؤں نے 7 اکتوبر کو غزہ سے اسرائیل کی سرحد پر حملہ کیا جس میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک اور تقریباً 240 کو حراست میں لیا گیا۔ اب تک صرف چار قیدیوں کو رہا کیا گیا ہے۔