بیس نومبر کو دنیا بھر میں بچوں کا دن منایا گیا۔ ورلڈ چلڈرن ڈے کے اس اہم موقع پر اسرائیل کی جانب سے دنیا کو 45 روز میں 5600 بچے قتل کرنے کی سفاکیت بطور تحفہ پیش کی گئی۔ عالمی انسانی حقوق کے ادارے اور عالمی تنظیمیں اسرائیل کو فلسطینیوں کے قتل عام سے باز رکھنے میں ناکام رہیں۔ ان پینتالیس دنوں میں ساری دنیا کو بچوں کی ٹوٹی لاشیں اور چیتھڑے دکھائی دیتے رہے۔ عالمی برادری اور مسلم دنیا ننھے منے بچوں کو خوفناک بمباری سے بچانے میں ناکام رہی ۔بچوں کے اس عالمی دن پر صہیونی ریاست نے صرف 5600 ننھی لاشوں سے ہی دنیا بھر کے لوگوں کو نہیں لرزایا بلکہ 1800 سے زیادہ کم سن بچے اب بھی لاپتہ ہیں۔ یہ وہ بچے ہیں جن کی لاشوں تک بھی رسائی نہیں ہوسکی اور ممکنہ طور پر تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے دبی ہوئی ہیں۔غزہ کی پٹی پر ہزاروں بچے زخموں سے چور ہوکر ورلڈ چلڈرن ڈے منا رہے ہیں۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق اس جنگ میں 31000 افراد زخمی ہیں جن میں 70 فیصد سے زیادہ خواتین اور بچے ہیں۔غزہ پر بارود کی بارش کرنے والے اسرائیل کو اجتماعی قتل عام سے روکنے کی دنیا بھر کے ممالک کی کوششوں ناکام ہوچکی ہیں۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے صرف مذمت کرنے تک محدود ہیں۔ حماس نے اس عالمی دن پر ایک مرتبہ پھر اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ کے بچوں کی حفاظت کرے اور اجتماعی قتل عام کو روکنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے۔ بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے پر اسرائیل کو "شرم کی فہرست” میں شامل کرے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بین الاقوامی فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹر پر زور دیا کہ وہ غزہ کی پٹی میں جنگی جرائم کی تحقیقات میں تیزی لانے کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات کرے۔تنظیم نے ایک بیان میں مزید کہا کہ اسرائیلی افواج نے ایک بار پھر غزہ کی پٹی پر مسلسل بمباری کرکے شہریوں کو تباہ کن نقصانات پہنچائے ہیں اور بڑی بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے۔جنگی قوانین کی خلاف ورزیوں کے سلسلے میں جاری تحقیقات کے ایک حصے کے طور پر ایمنسٹی انٹرنیشنل نے دو مثالی واقعات کو دستاویزی شکل دے دی ہے جن میں اسرائیلی کارروائیوں میں 20 بچوں سمیت 46 شہری مارے گئے۔ایمنسٹی نے بین الاقوامی فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹر پر زور دیا کہ وہ بین الاقوامی قانون کے تحت جنگی جرائم کی تحقیقات میں تیزی لانے کے لیے فوری ٹھوس اقدامات کرے۔خیال رہے عالمی یوم اطفال 1954 میں پہلی مرتبہ منایا گیا تھا۔ یہ ہر سال 20 نومبر کو منایا جاتا ہے تاکہ بین الاقوامی باہمی انحصار کو بڑھاتے ہوئے بچوں کی فلاح و بہبود کو بڑھایا جا سکے۔