پشاور ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق رکن صوبائی اسمبلی شوکت یوسف زئی کو ایئر پورٹ پر روکنے کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کر دی۔
پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس اعجاز انور اور جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے دائر درخواست کی سماعت کی۔
دوران سماعت عدالت میں درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ میرے مؤکل کے خلاف کوئی کیس نہیں، وہ عمرے کی ادائیگی کے لیے جا رہے تھے۔
جسٹس اعجاز انور نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ عمرے کے لیے جا رہے تھے تو کیوں روکا گیا؟
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ڈی سی نے شوکت یوسف زئی کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی درخواست کی تھی۔
جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ ای سی ایل میں تو تب نام شامل کیا جاتا ہے جب بڑا مسئلہ ہو۔
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ عمرے کے لیے جاتے وقت شوکت یوسف زئی کا نام نہ ای سی ایل میں تھا اور نہ ہی اسٹاپ لسٹ میں تھا۔
جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے شوکت یوسفزئی سے مخاطب ہو کر کہا کہ الیکشن سر پر ہے، اور پارٹی کو تو آپ کی یہاں زیادہ ضرورت ہے، آپ گزشتہ 10 سال میں کتنی بار عمرے اور حج پر گئے ہیں؟
شوکت یوسفزئی نے بتایا کہ والد بیمار ہیں، خود نہیں جا سکتے تھے اس لیے مجھے کہا کہ عمرے کے لیے جاؤں، میں پاکستان سے بھاگ نہیں رہا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ شانگلہ کنونشن کے دن عمرے کے لیے جا رہا تھا کہ مجھے ایئر پورٹ پر روک لیا گیا اور ادھر شانگلہ میں میرے بھائی کو گرفتار کیا گیا۔
عدالت نے شوکت یوسف زئی سے استفسار کیا کہ اب آپ عمرے کے لیے جانا چاہتے ہیں؟
انہوں نے جواب دیا کہ اگر کوئی مسئلہ ہو تو پھر عمرے کے لیے نہیں جاؤں گا۔
سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کرتے ہوئے جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ ڈی سی سے پوچھ لیں کہ ای سی ایل میں نام کیوں ڈالنے کا کہا ہے، تھوڑی دیر بعد اس کیس کو دوبارہ سنیں گے۔