اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل ڈویژن بنچ نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی اپیل میں کیس ریمانڈ بیک کرنے کی نیب استدعا مسترد کرتے ہوئے ہائیکورٹ میں ہی میرٹ پر دلائل سن کر فیصلہ کرنے کا حکم دیدیا۔ نواز شریف کے وکیل کی جانب سے دلائل مکمل ہونے پر نیب سے دلائل طلب کرلیے گئے۔ گذشتہ روز سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اپنی لیگل ٹیم کے ہمراہ عدالت پیش ہوئے۔ اس موقع پر مریم اورنگزیب، اسحاق ڈار اور دیگر رہنما بھی کمرہ عدالت موجود تھے۔ سماعت شروع ہونے پر نوازشریف کے وکیل امجد پرویز روسٹرم پر آگئے اور دلائل دیتے ہوئے کہاکہ نیب نے سپریم کورٹ کے احکامات پر ریفرنسز دائر کیے جن میں ایک جیسا الزام تھا۔ فلیگ شپ ریفرنس میں احتساب عدالت نے نواز شریف کو بری کر دیا تھا۔ ایک ہی الزام پر الگ الگ ریفرنس دائر کیے گئے۔ ہم نے درخواست دی تھی کہ ایک الزام پر صرف ایک ہی ریفرنس دائر ہونا چاہیے تھا۔ نواز شریف کو 2018 دسمبر میں العزیزیہ ریفرنس میں سزا سنائی گئی۔ فلیگ شپ ریفرنس میں احتساب عدالت کی طرف سے نواز شریف کو بری کیا گیا۔ فیلگ شپ ریفرنس میں نیب اپنی اپیل بھی واپس لے چکا ہے۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو اس معزز عدالت نے بری کیا ہے۔ جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا یہ پانامہ کیس سے متعلق ہے۔ جس پر وکیل امجد پرویز نے کہاکہ جی یہ پانامہ سے متعلق ہے۔ پانامہ کیسز میں تین ریفرنسز دائر کئے گئے تھے۔ یہ تینوں ریفرنسز سپریم کورٹ کے ایک ہی حکم نامے کا نتیجہ تھے۔ ہمارا اعتراض ہے کہ چونکہ ان ریفرنسز میں الزامات آمدن سے زائد اثاثوں سے متعلق ہیں تو ریفرنس بھی ایک ہی دائر ہونا چاہیے تھا۔ احتساب عدالت نے ٹرائل الگ الگ کیا لیکن فیصلہ ایک ساتھ سنانے کا کہا تھا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کا ایک ساتھ ہی فیصلہ سنانے کا حکم برقرار رکھا تھا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیصلے میں کہا تھا ایک ساتھ تینوں کیسز کے فیصلے سے آسمان نہیں گر جائے گا۔ عدالت نے دیکھنا ہے کہ پراسیکیوشن نے اس کیس میں عائد کیے گئے الزام کو ثابت کیا یا نہیں۔ عدالت نے استفسار کیاکہ اس میں الزام کیا تھا؟۔ جس پر امجد پرویز ایڈووکیٹ نے بتایا کہ آمدن سے زائد اثاثہ جات کا کیس تھا، اس کیس میں 22 گواہ ہیں جن میں 13 وہ ہیں جنہوں نے ریکارڈ پیش گیا،وقوعہ کا کوئی چشم دید گواہ نہیں ہے،دو سیزر میمو کے پانچ دو لیڈ گواہ ہیں، صرف دو گواہ رہ گئے ، ایک محبوب عالم اور دوسرے واجد ضیا، ایک نیب کے تفتیشی افسر اور دوسرے جے آئی ٹی کے سربراہ ہیں،میں ان گواہوں کے بیانات سے کچھ پورشن عدالت میں پڑھ کر سناؤں گا،ہل میٹل اسٹبلشمنٹ 2005، 2006 میں جدہ میں قائم کی جاتی ہے جو حسین نواز کی ملکیت ہے،یہ تسلیم شدہ حقائق ہیں کہ العزیزیہ کو بیچ کر ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ قائم کی گئی، نیب کا الزام ہے کہ یہ دونوں کمپنیاں نواز شریف کی بے نامی ہیں،نواز شریف کا تعلق ان کمپنیوں کے بینک اکاؤنٹس، آپریشنز سے کبھی نہیں رہا،ایون فیلڈ میں بچوں کی عمریں کم تھیں، اس ریفرنس میں چارج میں لکھا ہوا ہے کہ حسین نواز کی عمر 28 سال تھی،واجد ضیاء اور محبوب عالم ثابت نہیں کر سکے کہ حسین نواز نواز شریف کی زیر کفالت تھے،یہ کیس پچھلے کیس سے اس لیے بہتر ہے کہ نواز شریف 12 اکتوبر 1999 سے مئی 2013 تک پبلک آفس ہولڈر نہیں تھے،جے آئی ٹی کے مطابق سعودیہ کی اتھارٹیز کو ایم ایل اے بھیجا جس کا جواب نہیں آیا،پچھلے سات سالوں میں یہ موقف رہا کہ میرے والد نے العزیزیہ سٹیل ملز بنائی تھی،نواز شریف کا کبھی بھی کسی طور پر اس سے کوئی تعلق نہیں رہا،اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ویڈیو کا معاملہ عدالت کے سامنے اٹھاتے ہوئے کہاکہ نواز شریف کے وکلاء میرٹ پر دلائل دے رہے ہیں،یہ میرٹس پر بحث کر رہے ہیں، ان کی کچھ متفرق درخواستیں بھی ہیں،یا تو یہ اپنی وہ درخواستیں واپس لیں،امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہاکہ جی، جج کی وڈیو کے حوالے سے درخواستیں ہیں،اْس سے پہلے اِنکی سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج سے متعلق ایک درخواست موجود ہے اسکو پہلے دیکھ لیں،اس حوالے سے مریم نواز نے بھی پریس کانفرنس کی تھی، معاملہ سپریم کورٹ گیا تھا،اس موقع پر نواز شریف کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیاکہ جج ویڈیوسیکنڈل سے متعلق اپنی درخواست کی پیروی نہیں کریں گے، جج ارشد ملک فوت ہو چکے ہیں ہم اس درخواست کی پیروی نہیں کر رہے، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ اگر جج کا کنڈکٹ اس کیس کے فیصلے کے وقت ٹھیک نہیں تھا بدیانت تھا تو اس کے اثرات ہوں گے،ہمیں بتائیں ان کو بطور جج کیوں برطرف کیا گیا تھا ؟ چارج کیا تھا؟، اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ میرٹ پر ہمارا کیس پہلے سے بہتر ہے،جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ کیا آپ اس درخواست پیروی کریں گے تو ہم اس کو دیکھیں گے،ارشد ملک اب نہیں ہیں لیکن باقی لوگ ابھی موجود ہیں، عدالت نے نواز شریف کے وکیل سے استفسار کیاکہ آپ کا فیصلہ ہے کہ آپ اس درخواست کی پیروی کرنا چاہتے ہیں یا نہیں ؟،جس پر نواز شریف کے وکیل امجد پرویز نے کہاکہ مجھے ہدایت دی گئی ہے جج ارشد ملک ویڈیو سیکنڈل سے متعلق درخواست کی پیروی نہیں کرنا چاہتے،میں جج ارشد ملک کے حوالے سے دعا گو ہوں اب وہ اس دنیا میں نہیں ہیں، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ کن گراؤنڈز پر جج ارشد ملک کو برطرف کیا گیا تھا ؟،اب یہ آپ کا اختیار ہے کہ آپ جج ارشد ملک کا معاملہ اٹھانا چاہتے ہیں کہ نہیں کیونکہ درخواست تو موجود ہے،ہم یہاں اسکرین لگا دیں گے اور وڈیو چلا دیں گے،لیکن یہ بات یاد رکھیں کہ یہ دو دھاری تلوار بھی ثابت ہوسکتی ہے،اب چونکہ ارشد ملک اس دنیا میں نہیں ہیں، جس پر امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہاکہ میں اس درخواست کو پریس نہیں کر رہا،چیف جسٹس نے کہاکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں ہمارے پاس 2 آپشنز ہیں،ایک یہ کہ ہم خود شواہد منگوا کر میرٹ پر فیصلہ کردیں،دوسرا یہ کہ ریفرنس کو دوبارہ احتساب عدالت کو ریمانڈ بیک کریں، اگر آپ کہتے ہیں تو میرٹ پر فیصلہ کردیں گے، ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے، چیف جسٹس نے اعظم نذیر تارڑ سے کہاکہ آپ نے ہمیں اپنا فیصلہ بتانا ہے،سپریم کورٹ نے مرحوم جج ارشد ملک کے حوالے سے سخت زبان استعمال کی ہے، وکیل نے کہاکہ ارشد ملک دنیا میں نہیں رہے اس لئے درخواست واپس لینا چاہتے ہیں، نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ سپریم کورٹ نے ایک راستہ ٹرائل کورٹ کو ریمانڈ دوسرا ہائی کورٹ کو خود فیصلہ کرنے کا دیا تھا،چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت میرٹ پر خود فیصلے کرے یا دوبارہ فیصلے کیلئے ریمانڈ کر دے یہی دو راستے ہیں، اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ محفوظ راستہ یہی ہے کہ دوبارہ فیصلے کیلئے ریمانڈ کر دیا جائے،نواز شریف کے ساتھ پہلے ہی بہت زیادتیاں ہو چکی ہیں،ہماری استدعا ہے کہ یہی عدالت میرٹ پر نواز شریف کی اپیل پر فیصلہ کر دے،اس سے قبل بھی دو اپیلوں پر فیصلہ اسی عدالت میں ہو چکا ہے،جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ کیس اگر ریمانڈ بیک کر بھی دیتے ہیں تو نواز شریف ملزم تصور ہونگے سزا یافتہ نہیں.ٹرائل کورٹ نے دوبارہ کیس کا فیصلہ کرنا ہو گا،اور اگر نیب کا یہی رویہ رہا تو پھر تو آپکو مسئلہ بھی نہیں ہو گا تو آپ کیوں پریشان ہو رہے ہیں؟،اس موقع پر نواز شریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے ہی نواز شریف کی العزیزیہ اپیل پر میرٹ پر فیصلہ کرنے کی استدعاکی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ اِس عدالت کے سامنے تین آپشنز ہیں،ایک راستہ کہ اپیل خارج کردیں، دوسرا کہ اپیل منظور کر کے نواز شریف کو بری کر دیں،تیسرا راستہ یہ ہے کہ اپیل منظور کر کے کیس احتساب عدالت کو واپس بھجوا دیں،اس موقع پر نیب کی جانب سے العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس کا معاملہ احتساب عدالت کو ریمانڈ بیک کرنے کی استدعا کی گئی اور پراسیکیوٹر نے کہاکہ اپیل میرٹ پر منظور ہوئی تو تشنگی رہ جائے گی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ مقدمہ ریمانڈ کرنا دو دھاری تلوار ہوسکتا ہے،اعظم نذیر تارڑ ایڈووکیٹ نے کہاکہ ارشد ملک زندہ ہوتے تو انہیں طلب کرنے کی استدعا کرتے، معلوم ہے کہ ٹرائل کورٹ سے کوئی بھی فیصلہ آ سکتا ہے،دلائل سننے کے بعد عدالت نے العزیزیہ کیس میں نوازشریف کی اپیل پر میرٹ پر سماعت کا فیصلہ کرتے ہوئے مقدمہ احتساب عدالت کو معاملہ بھجوانے کی استدعا مستردکردی، دوران سماعت چیف جسٹس نے ن لیگی عہدیداران کی عدالت میں نقل و حرکت پر اعظم نذیر تارڑ کی سرزنش کردی اور کہاکہ آپ ہر سماعت پر اتنا کراؤڈ لے آتے ہیں،کیا یہاں کوئی میچ ہو رہا ہے جو اتنی نقل و حرکت ہو رہی ہے؟،عدالت نے عطاء تارڑ کو نشست پر بیٹھے کا حکم دیدیا اور چیف جسٹس نے کہاکہ معاملہ ایسا ہی چلنا ہے تو ہم اٹھ کر چلے جاتے ہیں، جس پر اعظم نذیر تارڑ ایڈووکیٹ نے کہاکہ ہم نے تو سب کے موبائل بھی بند کروا دیے ہیں،چیف جسٹس نے کہاکہ موبائل بند کرانے پر آپ کا شکریہ لیکن نقل و حرکت بھی بند کرائیں، عدالت نے جج ویڈیو سیکنڈل کیس سے متعلق درخواست کی پیروی نہ کرنے کی استدعا منظور کرلی،جس کے بعد نوازشریف کے وکیل امجد پرویز نے میرٹ پر دلائل کا آغاز کر دیااور کہاکہ بیٹے نے باپ کو باہر سے بینکنگ چینل کے ذریعے رقم بھجوائی،ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ بنانے کے چار سال بعد یہ رقم بھجوائی گئی،2017 میں حسین نواز کے اکاؤنٹ سے جو رقم آئی وہ ٹیکس ریٹرن میں بھی ظاہر کی گئیں،العزیزیہ سٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ سے نواز شریف کا کوئی تعلق نہیں،کبھی ان دونوں کمپنیوں کی ملکیت کا دعوی نہیں کیا،یہ موقف سپریم کورٹ، جے آئی ٹی اور ٹرائل کورٹ کے سامنے بھی رکھا،بیٹوں کی طرف سے والد کو باہر سے رقم بھجوانا کوئی جرم نہیں،یہ کہتے ہیں کہ آپ کو جو رقم آئی ہے تو دراصل آپ اس کے اصل مالک ہیں،نیب نے نواز شریف کے خلاف سعودی عریبیہ کی آڈٹ فرم کی فوٹو کاپی پر انحصار کیا ہے، العزیزیہ کمپنی 2001 میں رجسٹر ہوئی،دوسری ہل میٹل 2005 میں رجسٹر ہوئی،ہل میٹل کے مالک حسین نواز شریف ہیں،اس کمپنی سے نواز شریف کا تعلق ثابت کرنے کے لئے کوئی دستاویزی ثبوت پیش نہیں کیا گیا،نیب کا سارا کیس نواز شریف کی ان کمپنیوں کی ملکیت ثابت کرنے کا تھا، ان کمپنیوں کے شئیر ھولڈرز حسین نواز شریف، عباس شریف اور ایک خاتون تھی،نواز شریف کا موقف یہ تھا العزیزیہ میرے والد میاں شریف نے بنائی تھی جسکے ساتھ انکا کبھی بھی کوئی تعلق نہیں رہا،جے آئی ٹی کا سربراہ جرح میں یہ تسلیم کرتا ہے العزیزیہ سے نواز شریف کے تعلق بارے انکو کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ملا ،?نواز شریف کی فیملی نے 1976 میں دبئی میں گلف سٹیل ملز لگائی،یہ گلف کی سب سے بڑی اسٹیل ملز تھی جو دبئی میں لگائی گئی،یہ بعد کی بات ہے کہ وہ بعد میں منافع میں رہی یا نہیں، لاہور ہائی کورٹ نے ججمنٹ دی کہ آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس دائر ہی تب ہو سکتا ہے جب آمدن اور اثاثے کی مالیت کا comparison موجود ہو،بے نامی ٹرانزیکشن کو ثابت کرنا نیب کی ذمہ داری تھی، نیب نے نواز شریف کے خلاف سعودی عریبیہ کی آڈٹ فرم کی فوٹو کاپی پر انحصار کیا ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ فوٹو کاپی کو عدالت نے بطور شواہد تسلیم کیسے کیا؟، امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہاکہ مقدمہ میں مرکزی گواہ صرف دو تھے باقی سب نے ریکارڈ ہی پیش کیا تھا،لاہور ہائی کورٹ نے ججمنٹ دی کہ آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس دائر ہی تب ہو سکتا ہے جب آمدن اور اثاثے کی مالیت کا comparison موجود ہو،چیف جسٹس نے کہاکہ مان بھی لیا جائے کہ پراپرٹی نواز شریف کی ہے پھر بھی چار عناصر پراسکیوشن کو پورے کرنے ہیں،امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہاکہ چاروں عناصر مسنگ ہیں، نواز شریف پبلک آفس ہولڈر نہیں تھے،جے آئی ٹی کسی کاغذ پر یقین نہیں رکھتی سر، امجد پرویز کے جملے پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے، نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ سپریم کورٹ میں ان کی جانب سے یہ ڈاکیومنٹ جمع کروائے گئے،سچائی انہیں ثابت کرنا تھی،اس موقع پر وکیل نواز شریف نے حسین نواز کی طرف سے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے ڈاکومنٹس سے اظہار لاتعلقی کرتے ہوئے کہاکہ یہ ڈاکومنٹ ہم نے نہیں ،مقدمے کے ایک فریق حسین نواز نے سپریم کورٹ میں جمع کرائے تھے، چیف جسٹس نے کہاکہ یہ ڈاکومنٹ ہے کیا ہمیں بھی تو دکھائیں، وکیل امجد پرویز نے کہاکہ یہ آڈٹ رپورٹ ایک سورس ڈاکومنٹ تھی،اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ آسان لفظوں میں سر ،فیصلہ پنچائیتی ہے ،اسے شاہی فیصلہ کہتے ہیں ،اعظم نذیر تارڑ کے جملے پر قہقہے لگ گئے، امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہاکہ یہ ٹرائل کورٹ کی بات کررہے ہیں،چیف جسٹس نے کہاکہ کیا العزیزیہ کمپنی کیطرف سے نواز شریف کو قابل ادا تنخواہوں سے متعلق دستاویز مصدقہ ہے؟،کیا جس شخص نے اْس قابل وصول تنخواہ کی دستاویز تیار کیں اْس نے کسی عدالت میں آ کر اِس کی تصدیق کی؟، امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہاکہ قابل وصول تنخواہ کی دستاویز تیار کرنے والے چارٹرڈ اکاؤنٹ نے کبھی عدالت میں ہیش ہو کر تصدیق ہی نہیں کی،یہ سب فوٹو کاپی دستاویز ہے اور ایون فیلڈ اپارٹمنٹ کیس میں عدالت نے فوٹو کاپی دستاویز کو بطور ثبوت ناقابلِ قبول قرار دیا ہے،اِس لئیے اس دستاویز کی کوڑ کباڑ سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں،نیب کی جانب سے نہیں بتایا گیا کہ 2001 میں العزیزیہ ملز پر کتنا خرچہ آیا تھا، یہ بھی شواہد پیش نہیں کئے گئے کہ العزیزیہ سٹیل ملز لگانے کیلئے سرمایہ کہاں سے آیا،یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ 2001میں نواز شریف کے اثاثے کی مالیت کیا تھی،ہماری استدعا ہے کہ کیس بنتا ہی نہیں تھا ، اپیل منظور کی جائے، عدالت نے نیب سے دلائل طلب کرتے ہوئے سماعت منگل تک کیلئے ملتوی کردی۔