الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریکِ انصاف کو متنازع انٹرا پارٹی الیکشن پر نوٹسز جاری کر دیے۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دینے کے لیے الیکشن کمیشن میں 14 درخواستیں دائر ہیں۔
الیکشن کمیشن میں سیاسی جماعت، پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کے خلاف دائر درخواستوں پر ابتدائی سماعت ہوئی۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے سماعت کی۔
درخواست گزاروں میں اکبر ایس بابر، راجہ طاہر نواز، نورین خان، نورین فاروق، محمود احمد، یوسف علی اور دیگر شامل ہیں۔
درخواستوں میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات سے پہلے کوئی شیڈول نہیں دیا گیا، ووٹرز فہرستیں بھی جاری نہیں کی گئیں، انتخابات سے متعلق پی ٹی آئی مرکزی سیکریٹریٹ میں کوئی سرگرمی نہیں ہوئی، پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات قانون وپارٹی آئین کے مطابق نہیں کرائے گئے۔
درخواستوں میں الیکشن کمیشن سے استدعا کی گئی ہے کہ تحریک انصاف کے انٹراپارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دیا جائے۔
پی ٹی آئی کے بانی رہنما اکبر ایس بابر اور راجہ طاہر نواز عباسی کے وکیل الیکشن کمیشن کے سامنے پیش ہوئے۔
اکبر ایس بابر کے وکیل نے کہا کہ آئین اور قانون بڑا واضح ہے اس لیے میں یہاں پیش ہوا، الیکشن کمیشن نے پارٹی آئین کے تحت انتخابات کا حکم دیا تھا، انٹرا پارٹی انتخابات کے لیے ووٹرلسٹ نہیں بنی، نامزدگی کا طریقہ کار نہیں تھا، پارٹی آئین میں الیکشن پروگرام کا ذکر نہیں ہے، پارٹی الیکشن کمشنر نے ڈیٹا بیس اپنے پاس رکھا ہوا ہے، کمیشن کی پاور ہیں کہ ایسے انتخابات کروانے والے کو ہٹا کر نئے الیکشن کروائے، ہم پارٹی آفس گئے اور الیکشن کی مکمل تفصیلات مانگیں۔
ممبر کمیشن نے سوال اٹھایا کہ کیا آئین میں ووٹر لسٹ مانگنا یا اس سب کا طریقہ کار ہے؟
اس پر اکبر ایس بابر کے وکیل نے بتایا کہ آئین میں ایسی کوئی گنجائش نہیں لیکن طریقہ کار یہی ہوتا ہے۔
ممبر کمیشن نے مزید استفسار کیا کہ آئین میں لکھا ہے کہ سب ممبر الیکشن کے لیے اہل ہیں تو آپ نے وہاں کیوں نہیں کہا؟
اکبر ایس بابر کے وکیل نے جواب دیا کہ ہم نے انٹرا پارٹی انتخابات کے لیے درخواست فارم مانگا لیکن مہیا نہیں کیا گیا۔
اکبر ایس بابر نے الیکشن کمیشن کے بینچ کو ویڈیو کی تفصیلات بتا دیں۔
ممبر کمیشن نے پوچھا کہ یاسمین راشد سمیت 2 رہنما جیل میں ہیں، انہوں نے کیسے درخواست دی یا ان سے دستخط لیا گیا؟ جیل سے درخواست پر دستخط لینے کا کوئی تو طریقہ کار ہو گا۔
اس پر طاہر عباسی کے وکیل نے کہا کہ جیل میں رہنے والے منتخب ہوئے، پشاور کے نامعلوم جگہ پر انتخابات کروا دیے گئے، کوئٹہ سے پارٹی ممبر آج الیکشن کمیشن میں پیش ہو رہی ہیں، وہ بھی الیکشن میں حصہ لینا چاہتی تھیں، آئین میں لکھا ہے کہ ہر شخص کو الیکشن میں حصہ لینے کا موقع ملنا چاہیے، پورے پراسس کے لیے جعلی طریقہ اختیار کیا گیا۔
راجہ طاہر نواز عباسی کے وکیل نےالیکشن کمیشن سے استدعا کی کہ اس الیکشن کو کالعدم قرار دیا جائے۔
اکبر ایس بابر نے الیکشن کمیشن میں کہا کہ ماضی میں ہزاروں لوگوں نے نامزدگی فارمز جمع کروائے تھے، جسٹس وجیہہ الدین نے الیکشن میں غلطیوں کی نشاندہی کی تھی، اس کے بعد لوگوں کو قصور وار ٹھہرا کر پارٹی سے نکالا گیا، اس کے بعد کے انتخابات آپ کے سامنے ہیں، آگے کچھ نہیں ہو سکا۔
الیکشن کمیشن میں بطور ثبوت پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات سے متعلق ویڈیوز پیش کی گئیں۔
اکبر ایس بابر کے وکیل نے انٹرا پارٹی انتخابات کی ویڈیو الیکشن کمیشن میں چلائی۔
پی ٹی آئی اسلام آباد کے جی 8 آفس میں اکبر ایس بابر کے جانے کی ویڈیو الیکشن کمیشن میں چلائی گئی۔
اکبر ایس بابر نے الیکشن کمیشن بینچ کو ویڈیو کی تفصیلات بتائیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم 4 بج کر 45 منٹ پر پی ٹی آئی سیکریٹریٹ گئے، ہم نے کاغذاتِ نامزدگی اور ووٹر لسٹیں مانگی۔
ویڈیو کے مطابق اکبر ایس بابر نے انٹراپارٹی الیکشن کے لیے تفصیلات آفس بیریئر سے مانگیں۔
پی ٹی آئی سیکریٹریٹ کے ملازمین نے اکبر ایس بابر کو جواب دیا کہ سابق پارٹی رہنما کو برقرار رکھا ہے۔
اکبر ایس بابر نے انٹرا پارٹی انتخابات کا طریقہ کار جاننے کی ویڈیو الیکشن کمیشن کو بطور ثبوت دے دی۔
اکبر ایس بابر نے کہا کہ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ قبول ہے قبول ہے کہہ کر انٹرا پارٹی انتخابات کو مکمل کہہ دیا گیا، جو ویڈیوز سیکریٹریٹ میں بنائی گئیں وہ ہماری ہیں۔
اس پر ممبر الیکشن کمیشن نے پوچھا کہ آپ نے ویڈیو کیوں بنائیں اور یہ دوسری پشاور کی ویڈیو کس نے بنائی؟
اکبر ایس بابر نے جواب دیا کہ ہم نے اس لیے سیکریٹریٹ میں ویڈیو بنائی کیونکہ ہم ثبوت رکھنا چاہتے تھے، پشاور کی ویڈیو میڈیا کی ہے، جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کیسے قبول ہے کہہ کر الیکشن کروا دیا۔
ممبر الیکشن کمیشن نے سوال کیا کہ ویڈیو بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
اکبر ایس بابر نے جواب دیا کہ پی ٹی آئی کی ویب سائٹ پر ڈیٹا نہ ملا اس لیے بطور ثبوت سینٹرل سیکریٹریٹ کی ویڈیو بنائی، کمیشن چاہے تو ویڈیو کی فارنزک کروا لے، اس سے قبل بھی ویڈیو ثبوتوں پر فیصلے ہوئے ہیں۔
ممبر الیکشن کمیشن نے کہا کہ یہی انٹرا پارٹی الیکشن ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ اس کے نتائج خوف ناک ہوں گے، آپ دوبارہ انتخابات کو تو بھول جائیں، ہم نے شفاف انتخابات کا کہا تھا۔
درخواست گزار محمود خان بھی الیکشن کمیشن کے سامنے پیش ہوئے۔
محمود خان نے الیکشن کمیشن میں کہا کہ میں پارٹی کا پرانا ممبر اور سابق چیئرمین کا ساتھی رہا ہوں، میں نے الیکشن خود لڑنا تھا لیکن کوئی کاغذات نہیں ملے۔