اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی رہنما شہر یار آفریدی کی گرفتاری سے متعلق توہینِ عدالت کیس کی سماعت کے دوران مئی تا ستمبر جاری ہونے والے ایم پی او آرڈرز کا ریکارڈ جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔
ڈپٹی کمشنر اسلام آباد اور ایس ایس پی جمیل ظفر کے خلاف توہینِ عدالت کیس کی سماعت جسٹس بابر ستار نے کی۔
دورانِ سماعت اسلام آباد کے 3 تھانوں کا ریکارڈ عدالت میں پیش کر دیا گیا۔
ایس پی فاروق بٹر کی وکیل بشریٰ قمر نے عدالت کوبتایا کہ ہمیں ریکارڈ نہیں دیا گیا، عدالت میری طرف سے آرڈر میں لکھ دے کہ ہمیں ریکارڈ نہیں دیا گیا۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ ہمیں بھی ریکارڈ آج ملا ہے، آپ کو بھی مل جائے گا۔
پراسیکیوٹر قیصر امام نے عدالت سے استدعا کی کہ مجھے 10 منٹ دیں، میں ایک دفعہ ریکارڈ دیکھ لوں۔
عدالت نے استدعا منظور کرتے ہوئے کیس کی سماعت میں 10 منٹ کا وقفہ کر دیا۔
ڈپٹی کمشنر آفس کے ریکارڈ کیپر علی محمد نے عدالت کو بتایا کہ ایم پی او آرڈرز کا ریکارڈ لے کر آیا ہوں۔
عدالت نے ریکارڈ کیپر علی محمد کو ہدایت کی کہ آپ اپنا بیانِ حلفی جمع کرا دیں اور ڈی سی نے جتنے ایم پی او آرڈر جاری کیے اور واپس لیے، یہ تمام ریکارڈ بیانِ حلفی کے ساتھ جمع کرائیں۔
ایس پی فاروق بٹر کی وکیل بشریٰ قمر نے استدعا کی کہ ہم ریکارڈ کیپر پر جرح کرنا چاہتے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ ریکارڈ کیپر نے یہ آرڈر جاری نہیں کیے، ان پرآپ جرح نہیں کر سکتیں، ڈی سی صاحب نے آرڈر جاری کیے، آپ ان پر جرح کر لیں، وہ بھی جواب نہ دینا چاہیں تو ان کی مرضی ہے۔
عدالت نے ہدایت کی کہ مئی سے ستمبر تک جتنے ایم پی او آرڈرز جاری ہوئے ان کا ریکارڈ بیانِ حلفی کے ساتھ جمع کرائیں۔
جسٹس بابرستار نے کہا کہ پہلے بات سمجھ لیں کہ کیس عدالت کو اسکینڈلائز کرنے کا نہیں ہے، یہ توہینِ عدالت کا کیس انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ کا ہے، ملزمان کے خلاف کیس ثابت ہو جاتا ہے تو اس کے نتائج کیا ہیں؟ میں نے 50 سالہ لاء دیکھا ہے، ایسے دو تین کیسز ہی ملے ہیں، توہینِ عدالت کے اکثر کیسز عدالت کو اسکینڈلائز کرنے سے متعلق ہیں، مجھے اس بات سے غرض ہے کہ انصاف ہونا چاہیے۔
عدالت نے کیس کی مزید سماعت 14 فروری تک ملتوی کردی۔