عام انتخابات کے نتیجے میں کوئی بھی سیاسی جماعت کامیاب قرارپائے، پیپلزپارٹی نے جس انداز سے انتخابی مہم چلائی، اس نے ثابت کیا ہے کہ ملک بھر میں اگر کوئی ایک جماعت پوری طرح فعال ہے تو وہ صرف پیپلزپارٹی ہے۔اتحادی حکومت یوں تو اپنی مدت سے تین روز پہلے یعنی نو اگست کو ختم کردی گئی تھی اور عبوری حکومت نے چارج سنبھال لیا تھا تاہم ملک میں بے یقینی کی صورتحال اس قدر تھی کہ کئی ملکوں کے سفارتکار بھی تذبذب کا شکار تھے کہ پاکستان میں الیکشن ہوں گے یا نہیں۔باوجود اس بات کے کہ آرمی چیف، الیکشن کمیشن اور عبوری حکومت بارہا کہتی رہی کہ الیکشن 8 فروری ہی کو ہوں گے،سپریم کورٹ کا کردار بھی قابل رشک تھا مگر افواہوں کا بازار ایسا گرم رہا کہ عوام بھی سوچتے رہے کہ الیکشن اگر ہوں گے تو کس قدر تاخیر سے ہوں گے، نتیجہ یہ نکلا کہ الیکشن آخری روز تک مسئلہ فیثاغورث بنا رہا۔انتخابی مہم میں جان تقریبا چار ماہ پہلے آئی، ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ملک کی ایک بڑی جماعت مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف وطن ہی میں نہیں تھے۔ ان کی برطانیہ سے پاکستان آمد پرہی ن لیگ اپنے ووٹرز کو فعال کرسکتی تھی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس بار پاکستان تحریک انصاف اپنے قائد عمران خان، پارٹی لیڈروں اور کارکنوں کیخلاف مقدمات، چھاپوں اور گرفتاریوں کی وجہ سے آزادانہ انتخابی مہم نہیں چلاسکی۔ جن دو بڑی جماعتوں کے درمیان دنگل ہوا وہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی تھیں۔مسلم لیگ ن کے جلسوں کی قیادت سابق وزیراعظم میاں نوازشریف، انکے بھائی میاں شہباز شریف اور بیٹی مریم نواز نے کی۔پیپلزپارٹی کے جلسوں اور ریلیوں کی قیادت بلاول بھٹواورانکی بہن آصفہ بھٹو نے کی، سابق صدر آصف زرداری نے چند جلسے کیے تاہم انہوں نے نوجوان نسل کو سامنے لانے کی حکمت عملی اپنائی۔مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف کی اکیس اکتوبر کو وطن واپسی کے بعد توقع کی جارہی ہے تھی کہ وہ ملک بھر کے طوفانی دورے کریں گے۔اسطرح چاروں صوبوں میں وہ لوگوں کوفعال کرکے مسلم لیگ ن کے ہر شہر میں جھنڈے گاڑھیں گے، مگر مسلم لیگ ن کی حکمت عملی مختلف رہی۔پچھلے چار ماہ کےدوران میاں نوازشریف کے جلسوں،ریلیوں،پریس کانفرنسوں اور میڈیا سے بات چیت کے حوالے سے دیکھا جائے تودلچسپ صورتحال سامنے آتی ہے۔لندن سے دبئی کے راستے تین ماہ پہلے لاہور آنے کے بعد مینار پاکستان پر میاں نوازشریف نے تاریخی جلسہ کیا۔ دو ماہ پہلے وہ مری گئے اوربلوچستان کا بھی دورہ کیا۔تاہم بلوچستان میں بڑا جلسہ کرنے سے گریز کیا۔اس عرصے میں میاں نوازشریف نے سیالکوٹ چیمبر سے بھی خطاب کیا۔ن لیگ کے قائد کی انتخابی مہم میں پچھلے ایک ماہ کےدوران تیزی آئی،اس عرصے میں انہوں نے بلترتیب لاہور، ساہی وال، لاہور، فیصل آباد، لاہور،حافظ آباد، مانسہرہ، لاہور، ننکانہ صاحب، بورے والا، لاہور، سیالکوٹ، لاہور،ہارون آباد، سوات، گوجرانوالہ ،مری اور قصور میں جلسوں، ریلیوں اور تقریبات سے خطاب کیا۔حیران کن طورپر میاں نوازشریف نے انتخابی مہم کے آخری روز کوئی بڑی سیاسی سرگرمی نہیں کی۔انتخابی مہم کےدوران میاں نوازشریف جہاں گئے وہاں انکی بیٹی مریم نواز شانہ بشانہ رہیں۔چار ماہ پہلے سے دیکھا جائے تو مریم نواز کا پہلا بڑا جلسہ یکم اکتوبر کو شاہدرہ میں ہوا۔ تین ماہ پہلے مریم نواز نے انتخابی مہم کچھ تیز کی، انہوں نے ٹھوکر نیاز بیگ اور لاہور میں خطابات کیے۔مریم نواز کی انتخابی مہم بھی اپنے جوبن پر ایک ماہ پہلے آئی۔ مریم نواز نے بلترتیب جلال پورجٹاں، اوکاڑہ، لاہور، ایبٹ آباد اور ظفروال میں جلسوں سے دھواں دھار خطاب کیا۔میاں نوازشریف لاکھ وزارت عظمی کے امیدوار سہی، مریم نواز نے ثابت کیا کہ وہ نہ صرف پنجاب کی وزارت اعلی سنبھالنے کے لیے تیار ہیں بلکہ اس بات کیلیے بھی اگر میاں نوازشریف وزیراعظم بن کر کچھ عرصے بعد یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ قیادت نئی نسل کو دی جائے تو مریم نواز اس کے لیے بھی تیار نظر آئیں جہاں تک ن لیگ کے رہنما اور سابق وزیراعظم میاں شہباز شریف کے جلسوں،ریلیوں اور تقریبات سے خطاب کا تعلق ہے، انکی مصروفیات بھی زیادہ ترپنجاب تک محدود رہیں۔چار ماہ کےدوران شہباز شریف نے بلترتیب لاہور، فیروز والا، لاہور کےدورے کیے ۔ ایک ماہ پہلے وہ جھنگ بھی گئے اور پھر کراچی کا اٹھائیس اور انتیس دسمبر کو دو روزہ دورہ کرکے ایم کیوایم کے رہنماوں سمیت مختلف سیاسی قیادت سے ملاقات کی۔حیران کن طورپر میاں شہباز شریف نے کراچی میں حلقہ این اے دوسوبیالیس سے قومی اسمبلی کی نشست ایم کیوایم کے حق میں چھوڑدی، اسطرح کراچی مسلم لیگ ن کے بڑے قائدین کے جلسوں سے محروم رہ گیا۔اس آخری ایک ماہ میں شہبازشریف نے بلترتیب شیخوپورہ، لاہور،خانیوال، لاہور، احمد پور شرقیہ، لاہور، منڈی بہاوالدین، پنڈی،لاہور، فیصل آباد اور لاہور میں جلسوں اور تقریبات سے اپنے مخصوص جوشیلے انداز سے خطاب کیا۔ن لیگ کے برعکس پیپلزپارٹی کی قیادت اس بارنوجوان نسل کے ہاتھ میں تھی۔ سابق وزیرخارجہ بلاول بھٹو نے مہم اس قدر پرجوش انداز سے چلائی کہ انکا پاوں ایک شہر میں تو دوسرا پاوں دوسرے شہر میں ہوتا۔ بلاول بھٹو نے لاہور سے الیکشن لڑ کر یہ ثابت بھی کیا کہ پیپلزپارٹی پنجاب میں زندہ ہے۔بلاول بھٹو نے نو ستمبر کو سندھ اور پنجاب کےدوروں سے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا تھا۔ بظاہر یہ دورے پرانے لوگوں سے ملاقاتوں، تعزیتوں اور دیگر مقاصد کے تحت تھے مگر یہ انتخابی مہم میں تبدیل ہوتے گئے۔اس دوران انہوں نے گاڑیوں کے قافلے کی صورت میں بدین، حیدرآباد اور سکھر میں ریلیوں سے خطاب کیا جس کے بعد وہ سندھ سے جنوبی پنجاب میں داخل ہوئے۔یہاں انہوں نے ملتان اور مظفرگڑھ میں ڈیرے ڈالے اور پھر لاہور جا کرسیاسی سرگرمی میں تیزی پیدا کی۔انتخابی مہم کا یہ وہ مرحلہ تھا جو ہر گزرتے روز بڑھتا گیا۔ بلاول بھٹو کراچی آئے اور ایک بار پھر اندرون سندھ کا طوفانی دورہ کیا ، جیکب آباد میں قدم جمائے اور پھر کراچی لوٹ آئے۔تین ماہ پہلے بلاول بھٹو کی انتخابی مہم اور تیزی سے بڑھی۔ انہوں نے کراچی میں ریلی سے خطاب کےبعد اسلام آباد کی راہ لی جہاں شہید ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کا معاملہ سپریم کورٹ میں اٹھایا جارہاتھا۔بلاول بھٹو سیاسی طور پر اس قدر فعال تھے کہ یہ معلوم ہی نہ ہوتا کہ وہ کب دوسرے شہر جاپہنچے ہیں۔ اسلام آباد سے انہوں نے پھر کراچی کا رخ کیا اور اس بار سندھ میں تھرپارکر کا انتخاب کیا جہاں بڑا جلسہ کیا۔ن لیگ کے برعکس بلاول بھٹو نے خیبر پختونخوا میں بھی ایک کے بعد دوسرے شہر میں مہم چلائی۔ وہ بلترتیب ایبٹ آباد، مردان، پشاور، نوشہرہ، اپر دیر اور چترال گئے جہاں شاندار جلسے کیے۔بلاول بھٹو یہاں سے کوئٹہ آئے اور ایک پھر خیبر پختونخواہ کا رخ کیا،اس بار شانگلہ، تیمرگرہ، کوہاٹ میں ڈیرے ڈالے۔بلاول بھٹو نے خیبرپختونخوا میں یہ جلسے ایسے وقت کیے جب خیبرپختونخوا میں دہشتگردی کی لہر تیز تھی، جمعیت علمائے اسلام اور پی ٹی آئی کے رہ نماوں سمیت مختلف سیاسی جماعتوں کے افراد کو نشانہ بنایا جاتا رہا تھا۔انتخابات سے ایک ماہ پہلے بلاول بھٹو نے پورے ملک کےایسے طوفانی دورے کیے کہ لوگ بھی حیران تھے کہ کوئی شہر بچے گا یا نہیں۔بلاول بھٹو نے بلترتیب اسلام آباد، گوجرانوالہ، پشاور، لاہور،حیدرآباد، لاڑکانہ، بے نظیر آباد، سکھر، لاہور، اسلام آباد، لاہور،فیصل آباد، لاہور، بہاول پور، نصیر آباد، خیر پور، لاہور، نوڈیرو، بدین، سانگھڑ، نوشہروفیروز، دادو، رحیم یارخان، کوٹ ادو، لاہور، ساہی وال، چینیوٹ، سرگودھا، گجرات، ملتان، پشاور، راول پنڈی، اسلام آباد، ڈیرہ اسماعیل خان، مالاکنڈ،خضدار، شکار پور، جیکب آباد، تھرپارکر، میرپورخاص، حیدر آباد اور پھر کراچی بھر کا دورہ کیا۔کراچی میں نہ صرف بلاول بلکہ انکی والدہ بے نظیر بھٹو بھی پیدا ہوئی تھیں، یہاں بلاول بھٹو نے بارہ گھنٹے کی ریلی نکالی، وہ شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے گئے اور ماضی کی طرح کراچی میں ایک پھر دلا تیربجا کے ترانے گونجے اور جئے بھٹو ، بے نظیر کے نعرے لگتے رہے۔بلاول بھٹو نے اپنی انتخابی مہم کا اختتام انتہائی معنی خیزانداز سے کیا، وہ اپنے آبائی شہر لاڑکانہ گئے جہاں خود گاڑی چلا کر بچوں اور بڑوں سے ملے ، سیلیفیاں بنوائیں اور ووٹ ڈالنے کا کہا۔پیپلزپارٹی کے چیرمین آخر میں اپنے نانا اور سابق وزیراعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو، والدہ شہید بے نظیر بھٹو اور ماموں میر مرتضی بھٹو اور میر مرتضی بھٹو کی قبروں پر گئے، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی۔ شاید یہ پوچھنے گئے تھے کہ انتخابی مہم کا حق ادا کرنے میں وہ کس قدر کامیاب رہے ہیں۔بلاول بھٹو کی چھوٹی بہن آصفہ بھٹو نے پہلی بار انتخابی مہم میں پرجوش انداز سے شرکت کی۔ وہ کئی جلسوں میں اپنے بھائی کےساتھ ساتھ رہیں اور علیحدہ جلسے بھی کیے۔پچھلے ایک ماہ میں آصفہ بھٹو بلترتیب حیدر آباد گئیں، کراچی، ٹنڈوالہ یار، لاہور، کراچی اور پھر حیدرآباد آئیں۔ جہاں انہوں نے ریلیوں کی صورت میں جیالوں سے خطاب کیا۔کراچی سمیت مختلف شہروں کی گلیوں میں وہ اس انداز سے گئیں کہ بے نظیر بھٹو کی یادیں تازہ ہوگئیں۔مفاہمت کے شہنشاہ آصف زرداری اس بار بیک فُٹ پر تھےمگرپچھلے تین ماہ کےدوران سابق صدر بھی وقفے وقفے سے الیکشن مہم میں ایکٹیو ہوتے رہے۔آصف زرداری نے خان گڑھ، کوئٹہ، تربت، گڑھی خدا بخش، حب، کہوٹہ اور چکوال میں خطابات کیے۔اس طرح ن لیگ کے مقابلے میں پیپلزپارٹی نے ملک گیر مہم چلا کر خود کو وفاق کی بڑی علامتی سیاسی جماعت کے طورپر منوالیا ہے۔یہ تو واضح نہیں کہ پیپلزپارٹی کی انتخابی مہم کا پلان بنایا کس نے تھا مگر یہ حیرت کا باعث ن ہیں ہوگا کہ اس کے پس منظر میں اک زرداری سب پہ بھاری’ ہی نکلیں۔’