روسی خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق صدر ولادیمیر پوتن نے بدھ کے روز روس کی یہودی برادری کے رہنماؤں کو بتایا کہ ماسکو نے حماس کے ساتھ اسرائیل کے تنازع میں پھنسے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے سفارتی کوششوں میں "مخصوص نتائج” حاصل کیے ہیں۔ایجنسیاں کہتی ہیں کہ پوتن نے یہ تبصرہ روس کے چیف ربی، برل لازار اور فیڈریشن آف جیوش کمیونٹیز کے سربراہ الیگزینڈر بورودا کے ساتھ ملاقات میں کیا۔ پوتن نے کہا کہ روس نے حماس کے سیاسی ونگ کے ساتھ اپنے رابطوں کا استعمال کیا "آپ جانتے ہیں کہ جب سے شرقِ اوسط میں حالات مزید کشیدہ ہوئے ہیں، روس یرغمالیوں کی لوگوں کی مدد کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔جیسا کہ معلوم ہے ہماری وزارتِ خارجہ نے حماس کے سیاسی ونگ کے ذریعے کام کیا اور مجموعی طور پر اس کے خاص نتائج برآمد ہوئے ہیں۔”
رپورٹ کردہ تبصروں کے مطابق پوتن نے مزید وضاحت نہیں کی۔صدر نے کہا، "ماسکو کی کوششیں اگرچہ روسی شہریوں کی مدد کے لیے کی گئی ہیں لیکن دوسروں کی مدد کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔”صدر کے حوالے سے کہا گیا، "ان میں بزرگ افراد اور ان کے خاندان کے افراد شامل ہیں جو ہولوکاسٹ سے بچ گئے تھے۔لیکن میں جانتا ہوں، میں سمجھتا ہوں کہ ان کوششوں کو جاری رکھنا بہت ضروری ہے۔ اور یہی ہم کر رہے ہیں۔”روس جو تقریباً دو سال پرانے یوکرین تنازعے کے آغاز کے بعد سے اسرائیل کے روایتی حریف ایران کے قریب آچکا ہے، نے فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے اپنی حمایت دوبارہ جاری کی ہے اور غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوجی کارروائی پر تنقید کی ہے۔ماسکو نے یہ بھی کہا ہے کہ شرقِ اوسط میں تشدد خطے میں امریکی پالیسی کی ناکامیوں کا عکاس ہے۔
ہولوکاسٹ سے بچ جانے والوں کے بارے میں پوتن کا حوالہ ایک دن بعد آیا ہے جب روس کی وزارتِ خارجہ نے اسرائیلی سفیر سیمونا ہالپرین کو اپنے "منفی ردعمل” کے بارے میں بتایا جو روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف اور روسی پالیسی پر ان کی تنقید پر ہوا تھا۔روسی اخبار کومرسنٹ کے ساتھ ایک انٹرویو میں اسرائیلی سفیر کے "ناقابلِ قبول تبصرے” پر روسی حکام نے تنقید کی جس میں انہوں نے کہا کہ لاوروف نے ہولوکاسٹ کی اہمیت کو کم کیا تھا اور یہ کہ روس کا حماس کے ساتھ رویہ بہت دوستانہ تھا۔