امریکی اخبار نے ذرائع کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنائے بغیر رفح میں فوجی مہم شروع کرنے پر اسرائیل کو سزا دینے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ تین امریکی عہدیداروں نے داخلی بات چیت کی تفصیلات پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی اور بتایا کہ سرزنش کا کوئی منصوبہ زیر غور نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اسرائیلی افواج امریکی نتائج کا سامنا کیے بغیر شہر میں داخل ہو کر شہریوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ خیال رہے پٹی کی 23 لاکھ کی آبادی میں سے نصف سے زیادہ لوگ بھاگ کر رفح میں پناہ گزین ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ کے سینئر عہدیداروں کے عوامی تبصروں نے واضح کیا ہے کہ امریکی نقطہ نظر میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔ اس سے قبل امریکہ نے کہا ہے کہ وہ زمینی حملے شروع ہونے سے پہلے شہریوں کی حفاظت کے لیے ایک قابل اعتبار منصوبہ دیکھنا چاہتا ہے۔ پیر کو یہ پوچھے جانے پر کہ کیا صدر نے اسرائیل کو فوجی امداد ختم کرنے کی دھمکی دی ہے، قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے کہا ہم اسرائیل کی حمایت جاری رکھیں گے، ہم اس بات کو یقینی بناتے رہیں گے کہ ان کے پاس ایسا کرنے کے لیے آلات اور صلاحیتیں موجود ہیں۔ آج کربی نے اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ اگر رفح آپریشن شہریوں کے تحفظ کی فکر کیے بغیر آگے بڑھا تو امریکہ کیا کرے گا۔ انہوں نے کہا میں فرضی کھیل میں ملوث نہیں ہوں گا۔ محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر سے پیر کو صحافیوں نے پوچھا امریکہ اسرائیل پر رفح میں کیا اثر ڈالتا ہے تو ملر نے جواب دیا کہ صدر جو بائیڈن اور سیکرٹری آف سٹیٹ بلنکن کی اسرائیل کے بارے میں کبھی کبھار سخت باتوں کا اثر ہوا ہے۔ ہم نے اسرائیل کی حکومت کی جانب سے اس کا جواب دیکھا ہے۔ ہمیشہ اس طرح سے نہیں جس طرح ہم چاہتے ہیں۔ لیکن ہماری مداخلتوں کا اثر ہوا ہے ہم اس سلسلے کو جاری رکھیں گے۔ کیا انتظامیہ اس نقطہ نظر کے نتائج سے مطمئن تھی؟ اس پر انہوں نے اعتراف کیا کہ بہت سے معاملات میں نہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ امریکہ نے کامیابی کے ساتھ اسرائیل کو غزہ میں مزید انسانی امداد کی اجازت دینے کے لیے دباؤ ڈالا ہے۔ ذرائع کے مطابق خدشہ یہ ہے کہ اگر امریکہ اسرائیل پر بہت سخت یا عوامی سطح پر تنقید کرتا ہے تو انتظامیہ کا کوئی اثر و رسوخ اپنے اسرائیلی ہم منصبوں پر ختم ہو جاتا ہے جو ممکنہ طور پر وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کو مزید جارحانہ فوجی مہم کی اجازت دینے پر اکساتا ہے۔