اسلام آباد‘ لاہور (وقائع نگار+ خصوصی رپورٹر+ اپنے سٹاف رپورٹر سے+ خبر نگار + سب تکرپورٹ) اسلام آباد ہائی کورٹ کے 8 ججوں کو پاؤڈر بھرے مشکوک خطوط موصول ہوئے ہیں جس میں ڈرانے دھمکانے والا نشان موجود ہے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق نے سائفر کیس کی سماعت کے دوران تصدیق کی کہ ہمیں خط موصول ہوئے ہیں، سائفر کیس کی سماعت میں تاخیر کی ایک وجہ یہی تھی، بنیادی طور پر ہائی کورٹ کو تھریٹ کیا گیا ہے۔ عدالتی ذرائع نے بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کو مشکوک خطوط موصول ہوئے جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ انتظامیہ نے دہشتگردی کی دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ عدالتی ذرائع نے بتایا کہ ایک جج کے سٹاف نے خط کو کھولا تو اس کے اندر پاؤڈر موجود تھا، اسلام آباد پولیس کی ایکسپرٹس کی ٹیم اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچ گئی۔ ذرائع نے کہا کہ پاؤڈر کے حوالے سے ابھی ایکسپرٹس کی ٹیم تحقیقات میں مشغول ہے، خط کے اندر ڈرانے دھمکانے والا نشان بھی موجود تھا، کسی خاتون نے بغیر اپنا ایڈریس لکھے خط ہائی کورٹ ججز کو ارسال کیے ہیں۔ عدالتی ذرائع نے کہا کہ چیف جسٹس عامر فاروق سمیت 8 ججز کو مشکوک خطوط موصول ہوئے، خط ریشم اہلیہ وقار حسین نامی خاتون نے لکھا ہے۔ ذرائع کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے انسپکٹر جنرل اسلام آباد پولیس اور ڈپٹی انسپکٹر جنرل سکیورٹی کو فوری طلب کرلیا ہے۔ دریں اثناء ججز کو ملنے والے مشکوک خطوط جانچ پڑتال کیلئے کاؤنٹر ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کر دیئے گئے۔ عدالتی ذرائع کے مطابق سٹاف نے خط کھولا تو اس کے اندر سفوف تھا۔ خط کھولنے کے بعد آنکھوں کے اندر جلن شروع ہوگئی۔ متاثرہ اہلکار نے فوری طور پر سینی ٹائزر استعمال کیا اور منہ ہاتھ دھویا۔ خط میں موجود متن پر لفظ ’انتھراکس‘ لکھا تھا۔ مزید براں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کے آئی ایس آئی پر الزامات سے متعلق 6 ججوں کے خط پر لاہور ہائی کورٹ بار نے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کر دی۔ آئینی درخواست پی ٹی آئی کے رہنما حامد خان کے ذریعے دائر کی گئی ہے جسے آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر کیا گیا ہے۔ جس میں استدعا کی گئی ہے کہ ہائی کورٹ کے چھ ججوں کے خط میں الزامات کی انکوائری کے لئے سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل کمشن بنایا جائے اور عدالتی امور میں مداخلت کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ واضح رہے 6 ججز کے خط کے حوالے سے سپریم کورٹ کا 7 رکنی بنچ چیف جسٹس جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں آج سماعت کرے گیا۔ سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے مبینہ مداخلت کے حوالے سے خط پر ازخود نوٹس کی سماعت آج ہوگی۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سات رکنی لارجر بنچ سماعت کرے گا۔ بینچ میں شامل دیگر ججز میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں۔ واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز نے چند روز قبل سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک خط میں عدالتی معاملات میں مبینہ مداخلت کا معاملہ اٹھایا تھا۔ دریں اثناء این این آئی کے مطابق لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط کی جوڈیشل انکوائری کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی۔ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں حکومتِ پاکستان اور وفاق کو فریق بنایا گیا ہے۔ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ 6 ججز کے خط پر سپریم کورٹ ججز سے جوڈیشل انکوائری کرائی جائے۔ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے استدعا کی کہ سپریم کورٹ حکومتی کمشن کی تشکیل کو کالعدم قرار دے اور خود ججز کے خط کے معاملے پر انکوائری کرے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کو دھمکی آمیز خطوط پر تھانہ سی ٹی وی میں مقدمہ درج کر لیا گیا۔ مقدمہ ڈاک وصول اور ڈسپیچ کرنے والی برانچ کے کلرک قدیر احمد کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔ مقدمہ انسداد دہشت گردی کی دفعہ 7 اے ٹی اے اور 507 کے تحت درج کیا گیا ہے۔ ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ آٹھ لفافے جج صاحبان کے پی ایس کو وصول کروائے۔یکم اپریل کو موصول ڈاکو کو نائب قاصد کے ذریعے تقسیم کرنے بھیجا۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سمیت دیگر جج صاحبان کے نام لیٹرز تقسیم کروائے چار لفافے کھولے گئے جن میں سفید پاؤڈر کی آمیزش پائی گئی۔ قمر خورشید کے فون پر بتایا کہ خطوط نہ کھولے جائیں اس میں کیمیکل ہے۔ لفافوں کے اوپر تحریک ناموس پاکستان کا حوالہ دیکر جسٹس سسٹم پرتنقید کی گئی۔ دریں اثنا سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں 6ججوں کے خط کی تحقیقات کیلئے 3 ججوں پر مشتمل کمشن تشکیل دینے کی درخواست دائر کر دی گئی۔ وزارت قانون اور وزارت دفاع کو فریق بنایا گیا ہے۔ درخواست میں سینئر قانون دان اعتزاز احسن نے موقف اپنایا کہ 5 مارچ کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججوںکی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک خط لکھا گیا، خط کے مطابق ججوںکا کورٹ آف کنڈکٹ عدلیہ کے کام میں مداخلت کے بارے میں رہنمائی فراہم نہیں کرتا، ججوں نے خط میں تحریر کیا ہے کہ کیا ججوںکو ڈرانا خفیہ اداروں کی پالیسی ہے؟۔ استدعا ہے کہ جسٹس (ر) شوکت صدیقی اور ججوںکے خط کو خفیہ اداروں کی جانب سے عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہونے کا ثبوت تسلیم کیا جائے۔ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث خفیہ اداروں کے افراد کے تعین کے لئے سپریم کورٹ کے 3 ججوں پر مشتمل کمشن قائم کیا جائے۔ جسٹس سسٹم کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے دھمکی کے لیے مخصوص شکل اور انگریزی لفظ Bacilus Anthracis استعمال کیا گیا۔ مقدمہ ہائی کورٹ کے ڈیوٹی کلرک (بیلف) قدیر احمد کی مدعیت میں درج کیا گیا جس میں انہوں نے بتایا کہ یکم اپریل 2024ء کو موصول شدہ ڈاک گزشتہ روز 2 اپریل کو نائب قاصد اکرام اللہ کے ذریعے تقسیم کرنے بھیجا، 8عدد لفافے ججز صاحبان کے پی ایس صاحبان کو وصول کروائے جس میں صاحب اسلام آباد ہائی کورٹ بقایا تمام جج صاحبان اسلام آباد ہائی کورٹ کے نام لیٹر میں نے تقسیم کروائے، یہ تمام لیٹر ریشم خاتون زوجہ وقار حسین نامکمل ایڈریس کے نام سے موصول ہوئے جو کچھ دیر بعد قمر خورشید صاحب کی طرف سے بذریعہ فون اطلاع ملی کہ جو ڈاک تقسیم کی گئی ہے میرے دفتر موصول شدہ لیٹر میں کیمیکل مواد پوڈر نما موجود ہے جس پر فوری طور پر تمام جج صاحبان کے ریڈروں کو اس بابت مطلعِ کیا گیا کہ بقایا لفافے نہ کھولے جائیں اور مقامی پولیس کو فوری طور پر مطلع کیا گیا مدعی مقدمہ نے مزید بتایا کہ مسماۃ ریشم خاتون و نامعلوم ملزموں نے خوف و ہراس پھیلانے کی خاطر ججز صاحبان کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جن کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ پولیس ٹیم کے انسپکٹر کے مطابق وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے R/I آفس بوقت دو بجے دن پہنچا تو مستغیث بالا نے تحریری درخواست معہ چار عدد بند اور چار عدد کھلے ہوئے لفافے جس میں عدالت عالیہ اسلام آباد کے چیف جسٹس و دیگر جسٹس صاحبان کے نام خطوط تحریر ہیں جو کھلے ہوئے چار عدد لفافوں میں سے سفید پاؤڈر کی آمیزش خطوط پر پائی گئی حسب طلبیدہ FIT انچارج دانش فاروق اے ایس آئی معہ ٹیم آیا جس نے پاؤڈر کا سرسری تجزیہ کیا کھلے ہوئے لفافوں میں موجود انگریزی خطوط کا مطالعہ کرنے پر تحریک ناموسِ پاکستان کا حوالہ دے کر جسٹس سسٹم کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور تھریٹ کرنے کے لئے مخصوص شکل اور انگریزی لفظ Bacilus Anthracis کا استعمال کیا گیا۔ سی ٹی ڈی نے زیر دفعات 7ATA . 507 ت پ مقدمہ درج کر لیا۔