صدارتی ایوارڈ یافتہ قوال معین نیازی کے صاحبزادے تاج محمد نیازی قوال بدھ کی شام انتقال کرگئے۔ ان کی نماز جنازہ کل (جمعرات) معین نیازی قوال اسٹریٹ نشتر روڈ پر ادا کی جائے گی۔
تاج محمد نیازی قوال نے ساری زندگی فنِ قوالی کی خدمت کی، وہ سماع کی محفلوں میں بہت نمایاں نظر آتے تھے اور اپنے خانوادے کا نام روشن کر رہے تھے۔
ان کا تعلق برصغیر پاک و ہند کے نامور موسیقی اور قوالی کے معتبر گھرانے اتر ولی ضلع علی گڑھ یوپی سے تھا۔ قوالی کا یہ فن اس گھرانے میں پچھلے ساڑھے سات سو سال سے چلا آرہا ہے۔
تعلق و نسبت کے حوالے سے قوالی کا یہ گھرانہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الہٰی و حضرت امیر خسرو سے وابستہ رہا ہے۔ اس گھرانے کے جد امجد شہاب خان، برصغیر پاک و ہند کے عظیم کلاسیکل گائیک تھے۔
تقسیم ہند کے بعد اس گھرانے کے معروف قوال معین نیازی مرحوم اپنے والد محمد علی نیازی اور خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ پہلے لاہور اور پھر کراچی میں مستقل طور پر سکونت پذیر ہوگئے تھے۔
معین نیازی قوال اور ہمنوا کے نام سے ناصرف کراچی بلکہ پورے پاکستان میں ان کی شہرت بطور قوال تسلیم کی گئی۔ اس مقبولیت کی بنا پر انہیں عوامی راگی کے خطاب سے نوازا گیا۔
اپنی خوبصورت اور جان دار آواز کے باعث انہیں جنوبی افریقہ میں ٹائیگر کا خطاب بھی دیا گیا۔ 1986ء میں جب وہ اجمیر شریف گئے تو حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے عرس شریف کے موقع پر ان کی مشہور قوالی، جوگن تھاڑی تورے دوار خواجہ اجمیری سرکار، کی مقبولیت پورے ہندوستان میں پھیل گئی۔
اس قوالی کے آڈیو اور ویڈیو کیسٹس نے ہندوستان میں بے حد پذیرائی حاصل کی۔ ان کی شہرت دنیا بھر کے شائقین قوالی تک پہنچ گئی۔ 1988ء معین نیازی کے انتقال کے بعد حکومت سندھ نے ان کی فنی خدمات کے اعتراف میں 1993ء میں ان کی رہائش والی اسٹریٹ کو ’معین نیازی قوال اسٹریٹ‘ کے نام سے منسوب کردیا۔ یہ اعزاز پاکستان میں پہلی بار کسی قوال کو حاصل ہوا۔
2004 میں حکومت پاکستان نے فنِ قوالی میں اعلیٰ خدمات کے اعتراف میں انہیں تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا۔
معین نیازی مرحوم کے بڑے صاحب زادے غوث محمد نیازی نے قوالی کے اس سلسلے کو اپنے چچا حاجی ناصر نیازی کی سرپرستی میں غوث محمد ناصر نیازی قوال کے نام سے جاری رکھا۔
اپنے والد اور بھائی کے انتقال کے بعد تاج محمد نیازی نے اپنے خاندانی ورثہ کو آگے بڑھاتے ہوئے اس خاندانی فن کو جاری رکھا ہوا تھا۔