صدر کسان اتحاد خالد کھوکھر نے کہا ہے کہ زراعت اب منافع کا نہیں خسارے کا کام بن چکا ہے۔
جیو نیوز کی خصوصی ٹرانسمیشن "آخری موقع” میں گفتگو کرتے ہوئے خالد کھوکھر نے کہا کہ زراعت پر ٹیکس لگا تو پھر پاکستان کی زراعت پر فاتحہ پڑھ لینی چاہئے، گندم کی مثال سامنے ہے۔
انہوں نے کہا کہ زرعی ایمرجنسی کا نفاذ ہونا چاہیے، زراعت کا شعبہ وینٹی لیٹر پر ہے، یہ اس طرح نہیں چل سکتی، جیسے ہم چلا رہے ہیں، زراعت اب منافع کا نہیں خسارے کا کام بن گیا ہے۔
صدر کسان اتحاد نے مزید کہا کہ ملکی ترجیحات میں زراعت کہیں بھی نہیں ہے، پاکستان کے کسانوں کو ہر سال کپاس کا عالمی مارکیٹ سے کم نرخ ملا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی کسان کو خطے کے کسانوں کے مطابق منافع نہیں ملتا، ہم سے 2200 روپے من گندم خرید کر شہریوں کو 6000 روپے من بیچی گئی۔
خالد کھوکھر نے یہ بھی کہا کہ زرعی شعبہ منافع بخش نہیں رہا، ہماری پیداواری لاگت بہت زیادہ ہے،کاشت کار کو ہر فصل پر نقصان ہوا ہے، ملک میں کھاد کے 5 مختلف نرخ ہیں، ایسے کام نہیں چلے گا۔
انہوں نے کہا کہ دنیا میں 25 سالوں پر مبنی زرعی پالیسی بنتی ہے، ہمارے یہاں ہر ہفتے تبدیل ہوتی ہے، گندم غیر ضروری درآمد کی گئی جس سے کاشت کار کی موت ہوگئی۔
صدر کسان اتحاد نے کہا کہ فوڈ سیکیورٹی کو ترجیح دینی ہوگی، کاشت کاروں کے لیے پیداواری لاگت کو کم کیا جائے، ہمیں غیرآباد رقبہ آباد کرنا ہوگا، جدید مشینری کے بغیر زراعت نہیں چل سکتی۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں زراعت پر 7 فیصد تک گروتھ چاہیے، زرعی ان پٹ پر سیلز ٹیکس لگایا گیا تو شعبہ ختم ہوجائے گا۔
خالد کھوکھر نے کہا کہ پنجاب حکومت نے وعدہ کیا تھا اور آخر میں مکر گئی، ہم روز بہ روز زراعت میں پیچھے کی طرف جا رہے ہیں، ملک کی ترجیحات میں کہیں بھی زراعت اور کسان نہیں۔