بجلی کے بل یا ٹیکس کلیکشن ایجنٹ؟ قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی پاور میں انکشاف ہوا ہے کہ حکومت بجلی بلوں سے ٹیکسوں کی مد میں سال میں 860 ارب روپے جمع کر رہی ہے۔
محمد ادریس کی زیر صدارت قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں وفاقی وزیر توانائی اویس احمد خان لغاری، سیکریٹری پاور راشد محمود لنگڑیال بھی شریک ہوئے، کمیٹی کو پاور ڈویژن کے ذیلی اداروں نے بریفنگ دی۔
سیکریٹری پاور نے کہا کہ بجلی صارفین کے بلوں پر ٹیکسوں کا بوجھ ہے، بجلی بلوں سے ٹیکسوں کی مد میں 860 ارب روپے سالانہ حاصل ہوتے ہیں، تمام صارفین کیٹیگریز پر 18 فیصد جی ایس ٹی عائد ہے، 500 روپے سے 20 ہزار کے بل پر 10 سے 12 فیصد انکم ٹیکس عائد ہے۔
25 ہزار کے بل پر 7.5 فیصد ایڈوانس ٹیکس عائد ہے، اس کے علاوہ 4 فیصد مزید ٹیکس بھی عائد ہے، ان ایکٹو کنزیومرز سے7.5 فیصد اضافی سیلز ٹیکس لیا جاتا ہے، 1.5 فیصد الیکٹریسٹی ڈیوٹی 35 سے 60 روپے پی ٹی وی فیس لی جاتی ہے، گردشی قرضے پر الگ سے ایک اجلاس ہونا چاہیے۔
جس پر وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا کہ ایف بی آر کیلئے پاور سیکٹر کے ٹیکس کلیکشن ایجنٹ ہیں۔
ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا کہ حیرانی ہے بجلی صارفین پر سات قسم کے ٹیکس ہیں۔
سیکریٹری پاور نے کہا کہ بجلی چوری مہم سے 96 ارب روپے کی بچت ہوئی، بجلی چوری کیخلاف مہم ستمبر 2023 میں شروع ہوئی تھی، پاور سیکٹر کو سرکاری کنٹرول میں رکھنے کا پروگرام نہیں، نجکاری کمیشن پاور سیکٹر کے اداروں کی نجکاری پر کام کر رہا ہے، کےالیکٹرک کی جب نجکاری ہوئی نقصانات 35 فیصد تھے آج 15 فیصد پر آ چکے، ڈسکوز کے بجلی نقصانات ساڑھے 16 فیصد سے زیادہ ہے۔
وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا کہ بجلی کمپنیاں چوری روکنے کیلئے اسٹاف مانگ رہی ہیں، اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہاں کتنا عملہ درکار ہے؟
وفاقی وزیر اویس لغاری نے کیپیسیٹی چارجز سے جان چھڑانے کا فارمولا دے دیا۔
اویس لغاری نے کہا کہ دیکھ رہے ہیں کہ کس آئی پی پیز کو پیسے دے کر فارغ کرسکتے ہیں، فاٹا میں لوڈشیڈنگ پر کمیٹی کو بتایا گیا کہ فاٹا میں بجلی کے میٹر ہی نہیں، وہاں مفت بجلی دی جاتی ہے۔ پچھلے سال 45 ارب روپے کی، اس سال 65 ارب روپے کی فری بجلی دیں گے۔
سیکریٹری پاور کا کہنا تھا کہ اب پانی، مقامی، کوئلے، سولر، ونڈ اور مقامی سستے فیول کے سوا کوئی بجلی منصوبہ نہیں لگے گا۔
پرائیویٹ پاور آف انفرااسٹراکچر بورڈ (پی پی آئی بی) کے منیجنگ ڈائریکٹر شاہ جہاں مرزا نے کمیٹی کو دی گئی بریفنگ میں بتایا کہ ملک میں 11 بجلی تقسیم کار کمپنیاں ہیں، ملک میں 100 کے قریب آئی پی پیز ہیں۔
سیکریٹری پاور نے کہا کہ ملک کی کےالیکٹرک سمیت کل بجلی پیداواری صلاحیت 45 ہزار میگاواٹ ہے، کےالیکٹرک کے سوا باقی ملک کی بجلی پیداواری صلاحیت 42 ہزار میگاواٹ ہے، مئی جون میں دستیاب بجلی 28 ہزار میگاواٹ ہوتی ہے، ملک میں آپریشنل دستیاب بجلی 27 ہزار میگاواٹ ہے، اس سال کراچی سمیت زیادہ سے زیادہ 30 ہزار میگاواٹ کے قریب بجلی فراہم کی۔
اجلاس میں شریک رکن کمیٹی رانا محمد حیات خان نے کہا کہ پاور سیکٹر کا حال پی ٹی سی ایل والا ہوتا دیکھ رہا ہوں، مہنگی بجلی نے عوام کا خون نچوڑ لیا، آٹا سستا ہوگیا مگر بجلی اوپر سے اوپر جا رہی ہے۔
رکن کمیٹی شیر علی ارباب نے کمیٹی اجلاس میں کہا کہ حکومت سولر صارفین کی حوصلہ شکنی کیوں کر رہی ہے؟، سولر صارفین سے سستی بجلی خرید کر مہنگی بیچی جا رہی ہے، سولر صارفین کو یرغمال کیوں بنایا گیا ہے۔
کمیٹی کے رکن محمد اقبال نے کہا کہ بجلی فاٹا میں پیدا ہو رہی مگر فاٹا کو دی نہیں جارہی، فاٹا علاقوں میں کئی کئی گھنٹے، کئی کئی ہفتے بجلی نہیں ملتی، ہمارے ساتھ ایسانہ کیا جائے جیسے بنگال کے ساتھ کیا جاتا تھا۔
ٹرائیبل ایریا الیکٹرک سپلائی کمپنی (ٹیسکو) کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) نے کہا کہ فاٹا میں وفاقی حکومت سے ملنے والی سبسڈی کے مطابق بجلی دیتے ہیں، فاٹا میں گھریلو صارفین کو فری بجلی دی جاتی ہے، فاٹا کے ان صارفین کو بجلی بغیر میٹر کے دی جا رہی ہے۔
وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا کہ گزشتہ سال فاٹا علاقوں میں 45 ارب روپے کی مفت بجلی دی گئی، اب مزید ایک سال مفت بجلی 65 ارب روپے میں پڑے گی۔
ٹیسکو کے سی ای او نے کہا کہ فاٹا میں چار گھنٹے بجلی دیتے ہیں سالانہ ایک گھنٹہ 14 ارب روپے میں پڑتا ہے۔