اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی اور وطن واپسی کی درخواست پر امریکی وکیل کلائیو اسمتھ کو امریکی صدر سے رحم کی اپیل کا ڈرافٹ پاکستان کے ساتھ شیئر کرنے کی ہدایت کر دی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی اور وطن واپسی کی درخواست پر جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے سماعت کی۔
درخواست گزار فوزیہ صدیقی کے وکیل عمران شفیق اور عدالتی معاون زینب جنجوعہ بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل، سابق سینیٹر مشتاق بھی عدالت میں حاضر ہوئے۔
سیکریٹری خارجہ سائرس سجاد قاضی بھی عدالتی حکم پر کمرۂ عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
فوزیہ صدیقی کے امریکی وکیل کلائیو اسمتھ ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے استفسار کیا کہ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ حکومت کو خوف کیا ہے؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حکومت مستقل بنیادوں پر فوزیہ صدیقی کو سپورٹ کر رہی ہے، جب کوئی پالیسی لیول کا فیصلہ کرنا ہو تو اس میں کچھ وقت لگتا ہے۔
عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ رحم کی اپیل کی پٹیشن میں وائٹ ہاؤس کو لکھ رہے ہیں یا نہیں، یہ جواب دیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ امریکی صدر کو رحم کی اپیل کا ڈرافٹ ہمارے ساتھ شیئر کیا جائے، رحم کی اپیل کا ڈرافٹ دیکھ کر ہی حکومت کی طرف سے پالیسی فیصلہ کیا جائے گا، اس کے لیے وقت چاہیے، عدالت دو تین ہفتوں کا وقت دے۔
اس کے ساتھ ہی ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت سے 5 ہفتوں کی مہلت دینے کی استدعا کر دی۔
عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی مہلت کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کلائیو اسمتھ کو ہدایت کی کہ 1 ہفتے میں عافیہ صدیقی رحم کی اپیل کا ڈرافٹ پاکستانی حکومت کے ساتھ شیئر کریں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کلائیو اسمتھ نے عافیہ صدیقی کے کیس کے حوالے سے کوشش کی، افغانستان بھی گئے، حکومتی آفیشلز میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو کہے کہ ہم اسمتھ کے ساتھ کھڑے ہیں۔
عدالت نے کیس کی سماعت 13 ستمبر تک ملتوی کر دی۔