کراچی (رفیق مانگٹ ) حزب اللہ کی فوج کتنی طاقتور ہے؟ خطے میں کتنا اثر ورسوخ ہے ؟ دنیا کے سب سے زیادہ ہتھیاروں سے لیس غیر ریاستی تنظیموں میں سے ایک ہے ، حزب اللہ کے پاس بہترین راکٹ اور ڈرون سمیت ہتھیار ہیں، اور اس کا دعویٰ ہے کہ وہ اسرائیل کے تمام حصوں کو نشانہ بنا سکتی ہے۔لبنانی پارلیمنٹ اور فوج پر بھی اثرورسوخ، تنظیم کے ایک لاکھ جنگجو ہونے کا دعویٰ ، امریکی تھنک ٹینک کے مطابق حزب اللہ کے پاس 30 ہزار فعال اور 20 ہزار ریزرو فوجی ہیں، لبنانی تنظیم ایرانی ساختہ رعد، فجر ، زلزال اور روسی ساختہ کاتیوشا راکٹ سے بھی لیس ہے، طیارہ اور جہاز شکن اور گائیڈڈ میزائلوں کیساتھ اسرائیل کے تمام حصوں کو نشانہ بناسکتی ہے، حزب اللہ کو شام میں اسد حکومت کی حمایت میں لڑنے کا جنگی تجربہ بھی حاصل ہے ۔ کچھ ماہرین کے مطابق اس کے راکٹوں کی تعدادایک لاکھ تک ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسے ایران سے ہتھیار اور رقم ملتی ہے – 2021میں اس گروپ کے پاس ایک لاکھ جنگجو ہونے کا دعویٰ کیا گیاجبکہ واشنگٹن ڈی سی میں قائم تھنک ٹینک سینٹر فار سٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیزکا تخمینہ ہے کہ حزب اللہ کے پاس تقریباً 30 ہزار فعال جنگجو اور 20 ہزار ریزرو فوجی ہیں، بی بی سی کے مطابق اس کے بہت سے جوانوں کو شام میں اسد حکومت کی حمایت میں لڑنے کا جنگی تجربہ بھی ہے۔اس کے پاس ایک لاکھ 20 ہزار سے دو لاکھ تک میزائل اور راکٹ ہیں۔اس کا زیادہ تر اسلحہ خانہ چھوٹے، ان گائیڈڈ، زمین سے زمین پر مار کرنے والے راکٹوں پر مشتمل ہے لیکن اس کے پاس طیارہ شکن اور جہاز شکن میزائلوں کے ساتھ ساتھ گائیڈڈ میزائل بھی ہیں جو اسرائیل کے اندر تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔نیوز ویک کے مطابق ان کے ہتھیاروں کے اہم ماڈلز میں ایرانی ساختہ رعد، فجر اور زلزال راکٹ کے ساتھ ساتھ روسی ساختہ کاتیوشا راکٹ شامل ہیں۔ اس گروپ کے پاس جدید ٹینک شکن میزائل ہیں، جیسے کہ روسی ساختہ کورنیٹ اور ایرانی ٹوفان، جو کہ امریکی TOW میزائل کا ریورس انجینئر ورژن ہے۔ حزب اللہ نے کبھی کبھار زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں کا استعمال کیا ہے اور اسرائیلی ڈرون کو مار گرانے کا دعویٰ کیا ہے، جس سے فضائی دفاعی صلاحیت کے کچھ درجے کی نشاندہی ہوتی ہے۔خطے میں حزب اللہ کا کتنا اثر و رسوخ ہے۔؟حزب اللہ کافی حجم کی فوجی قوت ہے – اس کا لبنان پر بھی خاصا غلبہ ہے۔اسے وسیع پیمانے پر ایران کے حمایت یافتہ نیٹ ورک کا سب سے طاقتور رکن سمجھا جاتا ہے جسے مزاحمت کا محور کہا جاتا ہے۔ اسرائیل حماس تنازع میں حزب اللہ کا کیا کردار ہے؟حزب اللہ کے حماس کے ساتھ طویل تعلقات ہیں – وہ اسرائیل کو دشمن سمجھتےہیں اور انہوں نے حملوں کے بعد 8 اکتوبر کو اسرائیل کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ شروع کیا۔ اعداد و شمار کے مطابق، پچھلے مہینے تک، اسرائیلی حملوں میں لبنان میں حزب اللہ کے تقریباً 350 جنگجو اور 100 سے زائد عام شہری، بشمول طبیب، بچے اور صحافی شہید ہو چکے ہیں۔ شہیدحسن نصر اللہ 1992 سے حزب اللہ کی قیادت کر تے آرہے ہیں جنھوں نے اس تنظیم کو سیاسی اور عسکری طاقت میں بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔مزاحمتی تنظیم حزب اللہ کا قیام 1982 میں لبنان کی خانہ جنگی کے وسط میں ہوا ،یہ خانہ جنگی 1975 سے 1990 تک 15 سال تک جاری رہی۔اس نے اسرائیل کی طرف سے لبنان پر حملہ اور 1982 میں بیروت کے کچھ حصوں پر قبضہ کرنے کے بعد اسرائیلی افواج کا مقابلہ کیا ۔حزب اللہ کا لغوی مطلب ’’اللہ والوں کی جماعت‘‘ کے ہیں ، اس پر اکثر غیر ملکی اہداف پر حملوں کا الزام رہا جس میں 1983 میں امریکی میرین بیرکوں پر بمباری بھی شامل تھی جس میں 241 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ بھاری ہتھیاروں سے لیس تنظیم کا لبنان میں بڑا اثر ہے۔امریکا، کچھ مغربی حکومتیں اور دیگر اسے ایک دہشت گرد تنظیم سمجھتے ہیں۔ لبنان میں اس کے ارکان حکومت کا حصہ ہیں اور پارلیمنٹ میں درجنوں ارکان ہیں بلکہ یہ ملک کی فوج کو بھی کنٹرول کرتی ہے۔حزب اللہ نے 1992 سے لبنان کے قومی انتخابات میں حصہ لیا ہے اور ایک بڑی سیاسی طاقت بن چکی ہے۔ حزب اللہ اسرائیل کی حلیف دشمن ہے اور کھلے عام فلسطین میں صیہونی حکومت کی تباہی کا مطالبہ کرتی ہے۔2000 میں لبنان سے اسرائیلی افواج کے باضابطہ انخلاء کے بعد بھی دونوں کے درمیان متعدد مواقعوں پر جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا ہے۔