سندھ ہائی کورٹ نے کراچی کے علاقے کارساز میں پیش آنے والے حادثے کی مرکزی ملزمہ کی انسدادِ منشیات کے مقدمے میں ضمانت منظور کر لی۔
سندھ ہائی کورٹ میں کارساز میں پیش آنے والے حادثے میں ملوث مرکزی ملزمہ کی جانب سے انسدادِ منشیات کے مقدمے میں ضمانت کے لیے دائر کی گئی درخواست پر سماعت ہوئی۔
عدالت نے 10 لاکھ روپوں کے مچلکے جمع کروانے کے عوض ملزمہ کی درخواستِ منظور کر لی۔
یاد رہے کہ کراچی کے علاقے کار ساز میں پیش آنے والے حادثے کے کیس میں فریقین میں رواں ماہ کے آغاز میں معاملات طے پا گئے تھے۔
6 ستمبر کو ہونے والی سماعت کے دوران ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کراچی شرقی کی عدالت نے کارساز حادثے کی ملزمہ کی درخواستِ ضمانت منظور کر لی تھی۔
مدعیٔ مقدمہ کے وکیل نے سماعت کے دوران نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ عدالت میں جمع کروائے تھے۔
عدالت نے ملزمہ کی 1 لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کی تھی۔
سماعت کے دوران ملزمہ کے وکیل نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ ملزمہ ذہنی مریضہ ہے، اگست 2005ء سے اس کا علاج چل رہا ہے، ملزمہ کے پاس یو کے کا ڈرائیونگ لائسنس ہے جو پاکستان میں 6 ماہ تک کارآمد ہے، ہلاک ہونے والوں کے ورثاء نے اللّٰہ کے نام پر معاف کر دیا ہے۔
فریقین میں طے پانے والے حلف نامے کا متن
طے پائے گئے حلف نامے میں متاثرہ خاندان کا کہنا ہے کہ ہمارے درمیان معاملات طے پا گئے ہیں ہم نے ملزمہ کو معاف کر دیا ہے۔
حلف نامے میں جاں بحق ہونے والوں کے ورثاء نے کہا ہے کہ ہم نے اللّٰہ کے نام پر معاف کیا ہے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔
ورثاء نے حلف نامے میں کہا ہے کہ ملزمہ کو ضمانت دینے پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے، جو حادثہ ہوا تھا وہ جان بوجھ کر نہیں کیا گیا۔
حلف نامے میں جاں بحق ہونے والوں کے ورثاء کا کہنا ہے کہ ہم نے بغیر کسی دباؤ کہ یہ نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ دیا ہے، ہم نے حلف نامے میں جو کچھ کہا ہے بالکل درست کہا ہے۔
20 اگست کو پیش آنے والے حادثے کا پسِ منظر
یاد رہے کہ 20 اگست کو کراچی کے علاقے کارساز روڈ پر ایک تیز رفتار گاڑی نے موٹر سائیکل کو ٹکر مار دی تھی جس کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔
جاں بحق ہونے والے عمران عارف اور آمنہ عارف باپ اور بیٹی تھے۔
جاں بحق شخص عمران عارف دکانوں پر پاپڑ فروخت کرتے تھے جبکہ خاتون آمنہ عارف نجی کمپنی میں ملازم تھی۔
آمنہ عارف والد کے ساتھ موٹر سائیکل پر دفتر سے گھر جا رہی تھیں کہ یہ حادثہ پیش آ گیا۔