پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر بیرسٹر علی ظفر نے کہا ہے کہ ملک میں آئینی بحران سے زیادہ سنگین جوڈیشل بحران ہے۔
سب تک نیوز کے پروگرام ’کیپٹل ٹاک‘ میں بیرسٹر علی ظفر اور ن لیگی سینیٹر طلال چوہدری نے شرکت کی۔
پی ٹی آئی سینیٹر کا کہنا تھا کہ احتجاج کرنا سیاسی جماعت کا آئینی حق ہے اگر یہ حق چھینا گیا تو وہ وارننگ دیتے ہیں کہ عوام پھٹ پڑیں گے اور اس سے نقصان ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ میرے لحاظ سے آئینی بحران تو ہے ہی، لیکن جوڈیشل بحران بھی سنگین ہے، میں اپنا مؤقف کل عدالت میں پیش کروں گا۔
بیرسٹر علی ظفر نے مزید کہا کہ ماضی کے فیصلوں پر عمل درآمد اس لیے نہیں ہورہا کیونکہ حکومت عمل نہیں کرنا چاہ رہی، ہم عدلیہ سے درخواست کرتے رہے ہیں کہ وہ خود کو سیاست سے دور رکھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو استعمال کیا جارہا ہے، بار ایسوسی ایشن کا 63 اے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔
پی ٹی آئی سینیٹر نے یہ بھی کہا کہ آئینی عدالت سے مسائل حل نہیں ہوں گے، مائنڈ سیٹ تبدیل کرنا ہوگا، اگر آپ چارٹر آف ڈیموکریسی پر عمل درآمد چاہتے تو کافی عرصہ پہلے کر چکے ہوتے۔
انہوں نے کہا کہ جب کسی کے حق میں فیصلہ آتا ہے وہ جج اچھا اور خلاف آجائے تو وہ جج برا لگتاہے، ججمنٹ پر تنقید بالکل کریں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میری نظر میں کیسز کو میڈیا پر براہ راست نشر کرنا غلطی تھی، بدقسمتی سے رواج بن گیا ہے کہ ججمنٹ دیکھے بغیر جج پر تنقید کی جاتی ہے، انتخابی نشان سے متعلق ججمنٹ بالکل غلط ہے۔