برطانوی عدالت نے 10 سال کی بچی سارہ شریف کے قتل کے الزام میں والدین کو سزا سنادی گئی۔
لندن کی کریمنل کورٹ اولڈ بیلی نے سارہ کے والد عرفان شریف اور سوتیلی والدہ کو عمر قید کی سزا سنائی جبکہ سارہ شریف کے چچا فیصل ملک کو 16 سال قید کی سزا سنائی ہے۔
جسٹس جان کیو ناگ نے ریمارکس دیے کہ سارہ پر ظلم کی ناقابل یقین حد تک انتہا کی گئی، ملزمان نے مقدمے کی سماعت کے دوران کوئی پچھتاوا نہیں دکھایا۔ اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں کہ سارہ کو اسکول سے نکلوا کر گھر میں کوئی تعلیم دی گئی۔
انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ بینش بتول نے سارہ کو بچانے کیلئے کچھ نہیں کیا بلکہ عرفان کی مدد کی جبکہ یہ بھی واضح ہے کہ سارہ کے دوسرے بہن بھائی محفوظ تھے اور صرف سارہ کو نشانہ بنایا گیا۔
جسٹس جان کیو ناگ نے ریمارکس دیے کہ سارہ کو اپنے زخم چھپانے کیلئے حجاب پہننے اور جسم چھپانے پر مجبور کیا گیا، بینش بتول نے سارہ کو بچانے کی کوشش نہیں کہ اور اس کے زخموں کو میک اپ سے چھپانے کی کوشش بھی کی۔
انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق سارہ کے جسم پر 71 تازہ زخم تھے۔ سارہ کی موت کے بعد ایمبولینس بلانے کے بجائے فیملی پاکستان فرار ہوئی۔ سارہ کی موت کا سبب چھپانے میں تینوں ملزمان ملوث تھے۔ بینش بتول نے سارہ سے عرفان شریف کی بدسلوکی اور اسے چھپانے میں مدد کی۔
جسٹس جان کیو ناگ نے قرار دیا کہ عرفان شریف کو کم سے کم 40 سال جیل میں گزارنا ہوں گے۔ بینش بتول کو کم سے کم 33 سال جیل میں گزارنا ہوں گے۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ سزا کا کم سے کم وقت ختم ہونے کے بعد بھی رہائی کی گارنٹی نہیں، کم سے کم سزا کا وقت ختم ہونے کے بعد پیرول فیصلہ ہوگا۔
فیصلے کی کارروائی
عدالت میں سارہ شریف کی حقیقی والدہ اولگا شریف کا پیغام پڑھ کر سنایا گیا جس میں انہوں نے کہا کہ ’سارہ ہمیشہ مسکراتی رہتی تھی، وہ منفرد کردار کی مالک تھی۔‘
عرفان شریف کے وکیل بیرسٹر نعیم میاں نے جج سے عرفان شریف کو 15 برس کی سزا دینے کی تجویز پیش کردی۔
کیس کا فیصلہ
خیال رہے کہ 11 دسمبر کو سارہ شریف قتل کیس کا فیصلہ سامنے آیا تھا۔ مقتولہ سارہ کے والد عرفان شریف اور سوتیلی ماں بینش بتول کو قتل کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔
دوران سماعت عرفان شریف نے سارہ کو آئے زخموں کی ذمہ داری قبول کرلی تھی جبکہ عرفان شریف نے سارہ کو دھاتی ڈنڈے، کرکٹ بیٹ اور موبائل فون سے مارنے کا اعتراف بھی کیا تھا۔
سارہ کا قتل
سارہ کی لاش 10 اگست 2023 کو ووکنگ میں واقع اس کے گھر سے ملی تھی۔ سارہ کی لاش ملنے سے ایک روز قبل عرفان شریف، بینش بتول اور فیصل ملک پانچ بچوں کے ہمراہ پاکستان روانہ ہو گئے تھے۔
سارہ کے والد 42 سالہ ٹیکسی ڈرائیور عرفان شریف، سوتیلی ماں 30 سالہ بینش بتول اور چچا فیصل ملک واقعے کے ایک ماہ بعد برطانیہ واپس آئے جہاں انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ پولیس نے طیارے کے دروازے کھلتے ہی اس میں جاکر تینوں کو ہتھکڑیاں لگا کر گرفتار کیا۔ اکتوبر کے وسط سے ان پر مقدمہ چل رہا تھا۔
مقدمے کی سماعت میں چونکادینے والے انکشافات
مقدمے کی سماعت نے سب کو چونکا دیا، لندن کی اولڈ بیلی عدالت کو بتایا گیا کہ کس طرح سارہ کو 25 فریکچر ہوئے جن میں گردن کی ہڈی کا ٹوٹنا بھی شامل ہے۔
پیتھالوجسٹ اور ہڈیوں کے ماہر انتھونی فریمونٹ نے جیوری کو بتایا کہ انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ ’گردن کے کمپریشن‘ کا نتیجہ ہے جو عام طور پر ہاتھوں سے گلا گھونٹنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔
انکا کہنا تھا کہ سارہ کے جسم پر کاٹنے کے نشانات سمیت درجنوں زخم تھے جبکہ اس کے ڈی این اے کے ساتھ ساتھ اس کے والد اور چچا کے ڈی این اے کا پتہ کرکٹ کے بلے اور بیلٹ کے دونوں سروں پر پایا گیا تھا۔ سارہ کا خون ایک کیریئر بیگ کے اندر پایا گیا جس کے بارے میں خیال ہے کہ اس کے سر پر رکھا گیا تھا، جبکہ بھوری ٹیپ کے ٹکڑے پر خون اور بالوں کا پتہ چلا۔
ملزمان کی الزامات کی تردید
ملزمان اپنے اوپر لگے الزامات کی تردید کرتے رہے۔ ججوں کو بتایا گیا کہ بتول واحد مدعا علیہ تھی جس نے اپنے دانتوں کے نمونے فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
سماعت مکمل
علم میں رہے کہ چند روز قبل ہی سارہ شریف کے قتل کی سماعت مکمل ہوئی تھی جہاں جج نے جیوری کو اپنا فیصلہ دینے کا کہا تھا۔ یہ جیوری 9 خواتین اور 3 مردوں پر مشتمل تھی۔ ہائیکورٹ کے جج نے جیوری ممبران کو ہدایت کی کہ اگر ہو سکے تو وہ ایک متفقہ فیصلے کے ساتھ واپس آئیں۔
جج نے جیوری سے یہ بھی کہا تھا کہ وہ ہر ملزم کے خلاف قتل کے متبادل الزام کے طور پر غیر ارادی قتل کی فرد جرم پر بھی غور کر سکتے ہیں۔