کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ’’جرگہ‘‘ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام کےسربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہےکہ ہماری حکومت کے ساتھ بات چیت بڑے مثبت پیرائے میں ہوئی اور حکومت نے ہمارے دلائل کو قبول کیا اور کہا کہ ہمارے اوپر کمٹمنٹ ہے جو ہمیں پورا کرنا لازم ہے۔ ہمیں امید ہے قانونی تقاضے پورے کر کے دستخط ہوجائیں گے۔ ہمیں اسلام آباد کی طرف مارچ کی ضرورت نہیں پڑے گی نہ انہیں جوائنٹ سیشن کی ضرورت پڑے گی۔ مسالک کا اختلاف اجتہادی ہے اس میں کوئی گناہ بھی نہیں ہے ۔ پاکستان میں بالخصوص دینی مدرسہ موضوع بحث رہا ہے اور نائن الیون کے بعد امریکہ نے جس عنوان کے ساتھ افغانستان میں دنیا کے دوسرے علاقوں میں فوجیں اتاریں اس میں مذہب سے وابستہ لوگوں کو بڑا خطرہ قرار دے دیا۔ پاکستان بھی دباؤ میں رہا جنرل مشرف کے زمانے میں دینی مدارس پر دباؤ بڑھ گیا پاکستان کے دینی مدارس اس کا تعلق کسی بھی مکتب فکر سے ہو انہوں نے دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے سنجیدہ رویہ اپنایا اور 2004 کے دسمبر میں مدارس اور حکومت ایک نتیجے پر پہنچ گئی اور 2005 میں اس پر دستخط ہوگئے قانون سازی ہوگئی اور یہ دیکھنا تھا کہ مدارس میں کیا پڑھایا جارہا عالمی تحفظات تھے کہ شدت کے مضامین تو نہیں پڑھائے جارہے بالآخر حکومت نے اطمینان کا اظہار کیا کہ کوئی اعتراض نہیں ہے البتہ اس میں فرقہ وارانہ اور تشدد پر مبنی گفتگو اسباق میں نہ پڑھایا جائے ہاں تقابل ادیان کی حد تک اگر استاد علمی بحث کرتا ہے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ تقابل ادیان، مسالک، یعنی علمی بحث جو ہوتی ہے اس پر انہوں نے کہا اس پر اعتراض نہیں ہوگا۔حکومت نے کہا اگر مدارس کے پاس وسائل آتے ہیں تو میٹرک ایف اے وغیرہ بھی کرسکیں تو مدارس اصلی علوم پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے تو یہ معاملہ طے ہوگیا۔ اس کے بعد 2019 میں ایک نیا کٹا کھول دیا گیا کہا سوسائٹی ایکٹ جو رجسٹریشن کے لیے بنایا گیا تھا کہا صوبائی معاملہ بن گیا ہے اور اٹھارہویں ترمیم کے بعد یہ ہوگیا وہ ہوگیا تو ایسے ایسے سوال اٹھائے دینی مدارس پر دباؤ آیا اور وہ اس پر حکومت کے ساتھ بیٹھ گئے اس وقت ایک معاہدہ ہوا اس کی تین بنیادیں تھیں کہ دینی مدارس کی جن کی رجسٹریشن ہوچکی ہے وہ برقرار رکھی جائے گی جن کی نہیں ہوئی ہے حکومت تعاون کرے گی۔ اور تمام مدارس کے اکاؤنٹ بینک کھول دئیے جائیں گے اور غیر ملکی طلبہ جو پاکستان میں پڑھنا چاہیں تو پاکستان ان کو نو سال کا ویزا دے گا۔ انہوں نے باقاعدہ ایک ڈائریکٹر جنرل برائے مذہبی تعلیم قائم کردیا کہا ملک میں بارہ مراکز کھولیں گے اور رجسٹریشن کرانی ہے یہ یکطرفہ ہوا ایگزیکٹو آرڈر کے ساتھ یہی چیز تھی جس میں مدارس نے محسوس کیا کہ مدارس میں مداخلت کی جارہی ہے۔