اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو کی اسپتال میں ہونے والی پروسٹیٹ سرجری نے ان کی صحت کے بارے میں خدشات پیدا کردیے۔ اگر سرجری کے دوران ان کی موت واقع ہوجائے یا پھر صحت مزید بگڑ جائے تو ملک کے امور کون سنبھالے گا؟ اس حوالے سے سوالات جنم لے رہے ہیں۔
اسرائیلی میڈیا کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ پچھلے 30 برسوں کے دوران اسرائیل کو دو بار وزیراعظم کی اچانک عدم موجودگی کا سامنا کرنا پڑا جن میں سے پہلی مرتبہ 1995 میں اسحاق رابین کا قتل اور 2006 میں ایریل شیرون کا فالج کے سبب معذور ہونا شامل ہے۔
تاہم شیرون نے اپنے دور میں ایک جانشین مقرر کیا تھا جبکہ نیتن یاہو نے اس حوالے سے کوئی طویل المدتی منصوبہ بندی نہیں کی اور عارضی بنیادوں پر فیصلہ کیا۔
اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ اتوار کو ہونے والی اس سرجری کے دوران وزیرِاعظم کو مکمل بے ہوشی دی گئی اور وہ کئی دن تک اسپتال میں رہیں گے۔ اس دوران وزیرِانصاف یاریو لیوِن عارضی طور پر وزیرِاعظم کے فرائض انجام دیں گے جبکہ وزیرِدفاع اسرائیل کاتز کو سیکیورٹی کابینہ کے اجلاس بلانے کا اختیار ہوگا۔
یہ سرجری نیتن یاہو کی گزشتہ دو سالوں میں ہونے والی متعدد طبی مداخلتوں میں سے ایک ہے۔ مارچ 2024 میں انہیں ہرنیا کی سرجری کےلیے اسپتال میں داخل کیا گیا تھا اور اسی سال انہیں فلو کے سبب چند دن کام سے غیر حاضر رہنا پڑا۔
جولائی 2023 میں انہیں دل کی دھڑکن کی رکاوٹ کے باعث پیس میکر لگایا گیا۔ ایک ہفتہ قبل انہیں پانی کی کمی کے باعث اسپتال لے جایا گیا تھا، جس کے بعد ڈاکٹروں نے ان کی دل کی خرابی کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔
2023 کے آخر میں جاری کی گئی طبی رپورٹ میں نیتن یاہو کو مکمل صحت مند قرار دیا گیا تھا، لیکن اس سے پہلے 2016 سے لے کر 2023 تک کوئی رپورٹ جاری نہیں کی گئی۔ اسرائیل میں وزیرِاعظم کے لیے سالانہ صحت کی رپورٹ جاری کرنے کی پروٹوکول موجود ہے، لیکن یہ قانونی طور پر لازمی نہیں ہے، جس کے باعث نیتن یاہو پر دباؤ کم رہا۔
نیتن یاہو کی صحت کے حوالے سے بار بار کی جانے والی سرجری اور طبی مسائل نے اسرائیل میں ان کی قیادت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ یہ خدشات خاص طور پر ان کے جاری کرپشن کیسز کے تناظر میں زیادہ نمایاں ہو گئے ہیں، جس میں وہ اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ وزیرِاعظم کے عہدے پر فائز کسی شخصیت کے انتقال کی صورت میں اسرائیل میں حکومت کے نظام پر ایک غیر معمولی اثر پڑتا ہے۔
امیر فوکس جو اسرائیل ڈیموکریسی انسٹیٹیوٹ کے سینئر محقق ہیں کا کہنا ہے کہ اگر وزیرِاعظم دورانِ عہدہ انتقال کر جائے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ حکومت اسی دن مستعفی ہوگئی۔
رپورٹ کے مطابق فوکس نے مارچ میں دیے گئے ایک انٹرویو میں وضاحت کی تھی کہ اس صورتحال میں قوم کو بےقیادت نہیں چھوڑا جاتا۔ کابینہ فوری طور پر اجلاس منعقد کرتی ہے اور ایک سادہ اکثریتی ووٹ کے ذریعے کسی کنیسٹ (اسرائیلی پارلیمنٹ) رکن کو عارضی وزیرِاعظم مقرر کرتی ہے جو نئی حکومت کے قیام تک یہ ذمہ داری نبھاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صدر کو 14 دن کے اندر کسی کنیسٹ رکن کو حکومت تشکیل دینے کی ذمہ داری سونپنی ہوتی ہے۔ تاہم، نائب وزیرِاعظم ہونے کے باوجود، موجودہ وزیرِ انصاف یاریو لیوِن کو یہ عہدہ خودبخود نہیں ملے گا۔ انہیں بھی دیگر امیدواروں کی طرح کابینہ کے ووٹ کے ذریعے منتخب ہونا ہوگا۔
فوکس کے مطابق اسرائیل کا نظام امریکہ سے مختلف ہے جہاں صدر کے انتقال کی صورت میں نائب صدر فوراً صدر بن جاتا ہے۔ اسرائیل میں وزیرِاعظم کے انتقال کے ساتھ پوری حکومت ختم ہوجاتی ہے اور نئی حکومت کے قیام کا عمل شروع کیا جاتا ہے۔
اسرائیل میں 4 نومبر 1995 کو اس وقت کے وزیرِاعظم اسحاق رابین کو ایک یہودی انتہا پسند نے قتل کردیا تھا۔ اس واقعے کے فوراً بعد کابینہ نے اجلاس منعقد کیا اور وزیرِ خارجہ شمعون پیریز کو عارضی وزیرِاعظم مقرر کیا تھا۔
بعدازاں میں اسرائیل کے صدر ایزر ویزمین نے پیریز کو حکومت بنانے کی ذمہ داری سونپی تھی جو انہوں نے باآسانی مکمل کی تھی، تاہم چند ماہ بعد نئے انتخابات کا اعلان کیا گیا جو 29 مئی 1996 کو منعقد ہوئے۔
خیال رہے کہ موجودہ انتخابات میں پیریز کو بن یامین نیتن یاہو کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
دوسری جانب اگر صدر کی طرف سے نامزد وزیرِاعظم حکومت تشکیل دینے میں ناکام رہتا ہے تو ملک کو نئے انتخابات کا سامنا کرنا پڑے گا۔