اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایچ ای سی کو اسکالر شپ پالیسی میں اصلاحات لانے کی ہدایت کرتے ہوئے گائیڈ لائنز جاری کر دیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے 12 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایچ ای سی کو اسکالر شپ حاصل کرنے کے لیے بنائے گئے ضامن سے ڈھائی کروڑ روپے ریکور کرنے سے روک دیا۔
عدالت نے ضامن عبدالوحید کے خلاف 85 ہزار 406 یورو اور 76 ہزار 386 روپے کی ریکوری کی ڈگری کا فیصلہ کالعدم دے دیا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عمران تاج نے پی ایچ ڈی کے لیے 2 جون 2005ء کو اوورسیز اسکالر شپ میں اپلائی کیا، 26 دسمبر 2005ء کو ان کا ایچ ای سی سے معاہدہ ہوا۔
عدالت نے کہا کہ عمران تاج نے گارنٹی جمع کرائی کہ اسکالر شپ مکمل ہونے پر 4 سال پاکستان میں خدمات سر انجام دے گا، وہ اسکالر شپ مکمل کرنے کے بعد معاہدے کے مطابق فرانس سے پاکستان واپس نہیں آیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا ہے کہ بطور ضامن عبدالوحید نامی شخص کی پراپرٹی کے ڈاکومنٹس جمع کرائے گئے جس نے اسے جعلی قرار دیا، عبدالوحید نے ضامن کے طور پر جمع کرائی دستاویزات جعلی قرار دیں اور کہا کہ اس نے دستخط نہیں کیے، ایف آئی اے کو دستخطوں کے معائنہ اور موازنہ کا کہا گیا جس نے 14 ستمبر 2023ء کو رپورٹ پیش کی۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایف آئی اے رپورٹ کے مطابق عبدالوحید اور اس کی طرف سے بطور ضامن جمع دستاویزات میں فرق ہے، ٹرائل کورٹ نے دستاویزات پر موجود دستخطوں کی تصدیق کرانے کی کوشش نہیں کی، عمران تاج نے ایچ ای سی کو جعلی ڈاکومنٹس جمع کرائے، ایچ ای سی کے پاس کوئی اختیار نہیں وہ اپیل کنندہ سے بطور ضامن ریکوری کرے۔
عدالت نے کہا کہ ایچ ای سی پی ایچ ڈی اسکالر اور متعلقہ آفیشلز کے خلاف کریمنل پراسیکیوشن کر سکتی ہے، ایچ ای سی جعلی دستاویزات کا سہارا لینے والے عمران تاج کے خلاف مقدمہ درج کرا سکتی ہے، وفاقی حکومت کو ایسے نقصان سے بچانے کے لیے مستقبل میں ان گائیڈ لائنز پر عمل کیا جا سکتا ہے۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسکالر شپ کے لیے گارنٹی کو متعلقہ ڈسٹرکٹ کے سب رجسٹرار کے پاس رجسٹر کرایا جائے، تصدیق کے عمل میں آسانی کے لیے گارنٹی معاہدے پر ضامن اور گواہوں کی تصاویر شامل کی جائیں، ایچ ای سی اسکالرز کی تعلیم پر اٹھنے والے اخراجات کا مکمل ریکارڈ رکھے، ایسے تنازعات کے حل کے لیے ڈسپیوٹ ریزولوشن یونٹ قائم کیا جائے۔