سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر جسٹس امین الدین کی سربراہی میں آئینی بینچ سماعت کر رہا ہے۔
دورانِ سماعت وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے ملٹری ٹرائل کالعدم قرار دینے سے متعلق 5 رکنی بینچ کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ فیصلے کے مطابق تمام بنیادی حقوق ہیں جن کی وضاحت کر دی گئی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ بنیادی حقوق معطل ہونے کے لیے ایمرجنسی ہونا ضروری ہے، معاملہ مختلف ہے کہ ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں؟
وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ آرٹیکل 8 (3) کے مطابق جہاں ذکر ہے اسے مانتے ہیں، شہریوں کا ملٹری ٹرائل کالعدم قرار دیتے وقت آرٹیکل 233 کی غلط تشریح ہوئی، 5 رکنی لارجر بینچ نے بنیادی حقوق معطل ہونے کا تاثر لیا، بنیادی حقوق ایمرجنسی کی صورت میں معطل ہوئے تھے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پرویز مشرف کے دور میں اپیل کا حق نہ دے کر حقوق معطل ہوئے تھے۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ آرٹیکل 233 کا فوجی عدالتوں کے کیس سے کوئی تعلق نہیں تھا، آرٹیکل 233 کو آرٹیکل 8 (5) کی تشریح درست ثابت کرنے کے لیے چھیڑا گیا۔
جسٹس امین الدین نے کہا کہ بنیادی حقوق کا عدالتوں میں دفاع ہو سکتا ہے، صرف عملداری معطل ہوتی ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ موجودہ کیس میں ملزمان کو فوجی تحویل میں لیا گیا تو بنیادی حقوق معطل نہیں تھے نہ ایمرجنسی نافذ تھی۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عمل درآمد روکنا بنیادی حقوق معطل کرنے کے برابر ہے۔
دوران سماعت بھارتی جاسوس کلبھوشن کیس کا تذکرہ
دوران سماعت بھارتی جاسوس کلبھوشن کیس کا تذکرہ کیا گیا۔
جسٹس محمدعلی مظہر نے کہا کہ سپریم کورٹ نے مرکزی فیصلے میں آرمی ایکٹ کی شق 2 ڈی کو کالعدم قرار دیا، آرمی ایکٹ کی اس شق کو کالعدم قرار دینے سے مجموعی اثر کیا ہو گا، کیا اب کلبھوشن جیسے ملک دشمن جاسوس کا کیس ملٹری کورٹس میں چل سکتا ہے۔
وزارتِ دفاع کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے ملک دشمن جاسوس کا بھی ملٹری کورٹس میں ٹرائل نہیں چل سکتا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہم اپنے پراسیکیوشن کے نظام کو مضبوط کیوں نہیں کر رہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ جی ایچ کیو پر پہلے بھی ایک حملہ ہوا جس میں شہادتیں ہوئی تھیں، کراچی میں ایک دہشت گردی کی کارروائی میں ایک کورین طیارے کو تباہ کیا گیا، شہادتیں ہوئیں، طیارہ سازش کیس میں ایک آرمی چیف بیرونی دورے پر تھے، ان کے جہاز کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی گئی۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ وہ محض الزام تھا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ ان واقعات میں فوجی تنصیبات پر حملے ہوئے، شہادتیں ہوئیں، یہ تمام مقدمات کہاں چلائے گئے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کیس ملٹری کورٹس کے وجود کا نہیں بلکہ اختیار سماعت کا کیس ہے، کونسا کیس ملٹری کورٹس میں چلے گا کون سا نہیں چلے گا، یہ تفریق کیسے کی جاتی ہے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ آپ سوالات کی بھری ہوئی باسکٹ لے کر جا رہے ہیں، ایک باسکٹ میں میرا سوال بھی لے جائیں، 9 مئی واقعات میں 103 ملزمان کے خلاف ملٹری کورٹس میں کیس چلا، باقی کیسز انسداد دہشت گردی عدالتوں میں چل رہے ہیں، یہ تفریق کیسے کی گئی کونسا کیس ملٹری کورٹس میں جائے گا، کونسا کیس انسداد دہشت گردی عدالتوں میں جائے گا، ملزمان کو فوج کی تحویل میں دینے کا انسداد دہشت گردی عدالتوں کا تفصیلی فیصلہ کدھر ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کسی جرم پر کون اور کیسے طے کرتا ہے کیس کہاں جائے گا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ مقدمات کہاں چلنے ہیں اس کی تفریق کیسے اور کن اصولوں پر کی جاتی ہے۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ آرٹیکل 233 میں بنیادی حقوق معطل کرنے کی بات نہیں، آرٹیکل 233 میں ایمرجنسی کی صورت میں بنیادی حقوق معطل ہونے کی بات کی گئی ہے۔
کیا فوجی عدالتوں میں کوئی خاص ثبوت فراہم کیا جاتا ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل
جسٹس جمال مندوخیل نے خواجہ حارث سے کہا کہ صدرِ مملکت کے پاس اختیار ہے کہ بنیادی حقوق معطل کر سکے، ایگزیکٹیو صدرِ مملکت کے آرڈر پر عملدرآمد کراتی ہے، یہ تمام اختیارات ایگزیکٹیو کے ہیں تو کوئی اور کیسے اس طرح کے معاملات دیکھ سکتا ہے، سابق چیف جسٹس غلام محمد مرزا نے وکیل سے کہا تھا دلائل اچھے تھے مگر میں متاثر نہیں ہوا، اس معاملے میں میرا بھی آپ سے یہی شکوہ ہے، انسداد دہشت گردی عدالت سے ملزم بری ہو رہا ہے، اسے فوجی عدالت سے سزا ہو رہی ہے، کیا فوجی عدالتوں میں کوئی خاص ثبوت فراہم کیا جاتا ہے؟ انسداد دہشت گردی عدالتوں کو کیوں نہیں مضبوط بنایا جاتا؟ عدالتوں نے فیصلہ شواہد دیکھ کر کرنا ہوتا ہے۔
جسٹس حسن اظہر نے کہا کہ کیا 9 مئی واقعہ دہشت گردی سے زیادہ سنگین جرم ہے؟ جو ٹرائل فوجی عدالت میں ہو رہاہے؟ اچھے تفتیشی افسران اور پراسیکیوٹر رکھیں تو عدالتوں سے سزائیں بھی ہوں گی۔