سپریم کورٹ آف پاکستان نے رکن قومی اسمبلی عادل بازئی کو ڈی سیٹ کرنے کے خلاف اپیل کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کردہ تفصیلی فیصلہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ کوئی ممبر پارلیمنٹ منحرف ہوجائے تو اسے شوکاز نوٹس جاری کرنا ضروری ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ الیکشن کمیشن یا ٹربیونل پارٹی ہیڈ کے ڈکلیئریشن کا جائزہ لے کر اس کی تصدیق کرتا ہے، پارٹی ہیڈ کے ڈکلیئریشن کا تنازع ہو تو اسے فریقین سول کورٹ میں طے کر سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن حقائق کا خود سے جائزہ نہیں لے سکتا۔
عادل بازئی نے حلف نامے کے متعلق مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف پر الزامات عائد کیے۔ شہباز شریف اس وقت وزیر اعظم پاکستان ہیں، حلف نامے کا فوجداری مقدمہ سول کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
سول مجسٹریٹ کے سامنے فوجداری سماعت زیر التواء ہے وہ جلد اس کا فیصلہ کرے، حلف نامے کی اصلیت اور قانونی حیثیت کے متعلق دیا گیا فیصلہ سول عدالت کے حتمی فیصلے سے مشروط ہے۔
الزامات کی سنگینی کے پیش نظر توقع کرتے ہیں سول عدالت ان معاملات کا فیصلہ جلد از جلد کرے گی۔
ایم این اے عادل بازئی کی اپیل کے فیصلے میں جسٹس عائشہ ملک نے اضافی نوٹ بھی تحریر کیا۔
خیال رہے کہ گزشتہ ماہ سپریم کورٹ نے رکن قومی اسمبلی عادل بازئی کو ڈی سیٹ کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا۔
عادل بازئی کی اپیل پر جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی تھی۔ عدالت نے عادل بازئی کی اپیل منظور کرتے ہوئے اپنے حکم میں کہا تھا کہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے 63 اے کے تحت عادل بازئی کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ کر دیا تھا۔ عادل بازئی نے فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔
عدالت عظمیٰ نے 9 دسمبر کو عادل بازئی کی رکنیت بحال کی تھی جبکہ انکی اپیل منظور کرتے ہوئے ڈی سیٹ کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا تھا۔
علم میں رہے کہ عادل خان بازئی کی نااہلی کا ریفرنس پارٹی صدر ن لیگ نواز شریف نے اسپیکر کو بھجوایا تھا، انہوں نے بجٹ سیشن کے دوران پارٹی ہدایت کی خلاف ورزی کی تھی۔
سیشن کے دوران عادل بازئی حکومتی بینچز سے اٹھ کر اپوزیشن بینچز پر بیٹھ گئے تھے۔