ضلع کرم کے صدر مقام پارا چنار سمیت اپر اور لوئر کرم کے 100 سے زائد دیہات ساڑھے 3 ماہ سے محصور ہیں۔
21 نومبر کو پشاور سے پارا چنار جانے والے قافلے پر حملے میں بچوں اور عورتوں سمیت 50 افراد کے قتل نے علاقے میں کشیدگی کو عروج پر پہنچا دیا۔
امن معاہدے کے باوجود ٹل پارا چنار مرکزی شاہراہ کھلی اور نہ غذائی اشیاء جیسی بنیادی ضروریات پہنچنا شروع ہوئیں۔
ادھر علاقہ عمائدین افغانستان سے جڑی کرم کی طویل سرحد کو بے امنی کی وجہ قرار دیتے ہیں، کچھ کے نزدیک مسئلے کے حل کے لیے فریقین کو ماضی کی غلطیوں کو نظر انداز کرنا اور ایک دوسرے کو گلے لگانا ہو گا۔
واضح رہے کہ لوئر کرم کے علاقوں میں شر پسندوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں جس کے دوران علاقے میں کرفیو نافذ ہے اور لوئر کرم کے متاثرہ علاقوں میں سیکیورٹی فورسز اور پولیس کے دستے بھی موجود ہیں۔