سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں جدت سے بھر پور متعارف ہونے والی چیزیں دنیا کا نقشہ بدلنے اور زندگی کو آسان تر بنانے میں اہم کردار ادا کررہی ہیں۔ ان ایجادات کی بدولت جان لیوا بیماریوں کا علاج آسان سے آسان تر ہورہا ہے۔ ان میں سے چند ایجادات کا تذکرہ ذیل میں کیا جارہا ہے۔
سرطان کے خلاف جنگ… سونے کے نینو اسٹار
کسی بھی مادّے کا حجم جب نینومیٹر کی حد تک کم کردیا جاتا ہے تو ان کی خاص خصوصیات سامنے آتی ہیں۔ ان مواد کی غیرمعمولی خصوصیات کے نتیجے میں نینو ٹیکنالوجی کا میدان تخلیقی مواد ہے جو کہ موجودہ دور کی سائنس و ٹیکنالوجی کا اہم ترین میدان ہے۔ ایک نینومیٹر ایک میٹر کا ایک ارب واں حصہ ہے (یا ملی میٹر کا دس لاکھواں)ا ور نینوٹیکنالوجی میں ایک ایسا مواد شامل ہے، جس کا سائز اس 100نینو میٹر (nm) کے برابر ہوتا ہے۔
اس میں شامل اسکیل کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ DNA کے دوہرے ہیلکس کا قطر2nmہوتا ہے جب کہ زندگی کی مختصر ترین خلوی شکل جو کہ جنس Mycoplasmکا بیکٹیریا ہے، اس کی لمبائی 200nm ہے۔ سرطان کے مریضوں کا کیموتھراپی سے علاج میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ دوا عام صحت مند خلیات پر بھی حملہ آور ہوجاتی ہے، جس کے نتیجے میں اس کے شدید مضراثرات سامنے آتے ہیں۔
سائنس دان ایسے طریقے تلاش کررہے ہیں جن کے ذریعے سرطان کے خلیات کو منتخب طور پر ہدف بنایا جائے اورنشانے پر وا رکرنے کے لیے "Shotgun” کا طریقہ کار اختیار کیا جاسکے، جس میں یہ سرطان کے خلیات کے ساتھ نارمل صحت مند خلیات کو ان ادویات کے مضر اثرات سے محفوظ رکھا جا سکے۔
اگر صرف ہدف کا نشانہ بنایا جائے تو استعمال کی جانے والی دوا کی مقدار میں بھی خاطر خواہ کمی واقع ہوگی، کیوں کہ دوا کی معمولی سی مقدار سرف سرطان کے خلیات کو نشانہ بنائے گی۔ اس کے مضر ضمی اثرات سے بھی بچت ہوگی۔ نارتھ ویسٹرن جامعہ کے سائنسدانوں نے سونے کے نینو اسٹارز تیار کیے ہیں جو کہ صرف سرطان کے خلیات کے نیوکلیس کو ہدف بنائیں گے۔
یہ دوا سرطان کے خلیات کے خلاف استعمال ہوگی جو کہ ستارے کی شکل کے سونے کے نینو اسٹارز سے منسلک ہوں گے۔ ان نینو اسٹارز کے اندر صرف سرطان کی دوا بھری ہوگی جو سرطان کے خلیات کی سطح پر موجود پروٹین پرلگادی جائے گی۔ یہ پروٹین ایک چھوٹی شٹل سروس کی طرح کام کرتے ہوئے نینو اسٹار کو خلیے کے نیوکلیئس تک پہنچادے گی اور پھر صرف سرطان کے خلیات ہلاک کردیے جائیں گے۔
اس کی تیاری کے لیے ایسے تربیتی پروگرام اور نظام کے نفاذ کی ضرورت ہے، جس کے ذریعے ملک میں تیار کی جانے والی مصنوعات کم سے کم طے شدہ بین الاقوامی معیار کے مطابق ہوں۔ اس نظام کو( MSTQ (Methology, Standards, Testing and Quality کہا جاتا ہے۔
سائنس و ٹیکنالوجی میں برتری کی دوڑ
ہم سائنس کی عجیب و غریب کرشماتی دنیا میں رہ رہے ہیں۔ کرۂ ارض کی ابتدا سے جتنا علم انسان نے آج تک حاصل کیا ہے محض اگلے آٹھ سالوں میں وہ دگنا ہو جائے گا۔ یہ ذہن کو حیران کر دینے والے اعداد و شمار ہیں جو کہ گزشتہ5سے10سالوں میں ہونے والے علمی دھماکوں کا اظہار کرتے ہیں۔نئی معلومات کی صلاحیتوں کے حوالے سے مشرق سے مغرب کی جانب منتقلی واضح طور پر نظر آ رہی ہے۔
بالخصوص چین اور بھارت کے حوالے سے۔ ان دو ممالک کی بڑی نوجوان آبادی سیکڑوں ہزاروں کی تعداد میں جدید اداروں میں تربیت پارہی ہے اور ان کے اثرات ان ممالک کی سماجی معاشی ترقی پر نظر آنا شروع ہو گئے ہیں ۔ان ممالک کے GDP میں ہر سال 7سے 10 فی صدکا مستحکم اضافہ نظر آرہا ہے۔ نو سال پہلے چین کے طلبا کی آبادی صرف 5لاکھ تھی، مگر اب یہ تیزی سے بڑھ کر 25لاکھ ہو گئی ہے۔
چین کا خلائی ٹیکنالوجی کے میدان میں اہم قدم
کئی سال قبل چین نے خلائی ٹیکنالوجی کے حوالے سے ایک بڑا قدم اٹھاتے ہوئے انسانوں کے بغیر چلنے والے خلائی جہاز زمین سے211میل اوپر بھیج دیے۔ اس بڑے قدم کے ساتھ چین نے بڑی خلائی قوت بننے کے حوالے سے اہم پیش رفت کی ہے۔ یہ کامیابی سب سے پہلے1965ء میں امریکا کے حصے میں آئی تھی۔
اس کے بعد روس، یورپ اور جاپان نے اپنے اپنے خلائی اسٹیشن قائم کیے تھے۔ اب پہلا بین الاقوامی خلائی اسٹیشن تیار کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ چین کی تیز رفتار ترقی کی وجہ سے سائنس و ٹیکنالوجی کی میدان میں بڑی سرمایہ کاری ہورہی ہے۔
مصنوعی گردے پیوند کاری کے قابل
دنیا میں ہزاروں، لاکھوں افراد گردے کے مرض میں مبتلا ہیں اور ہر سال لاکھوں افراد گردے فیل ہوجانے کی وجہ سے ہلاک ہوجا تے ہیں۔ اس مرض کا علاج صرف گردوں کی تبدیلی ہے۔گردے عطیہ کرنے والے افراد کی تعداد بہت محدود ہے۔ اس حوالے سے جو آخری حل رہ جا تا ہے وہ ڈائی لیسزکا طریقہ ہے۔ ڈائی لیسز کے ذریعے گردے صرف 13 فی صد کام انجام دے پاتے ہیں۔
اس صورت حال میں سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں مصنوعی گردوں کی تیاری کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے، تاکہ اس کومریض کے جسم میں لگا دیا جا ئے۔ اس حوالے سے ایک اُمید پیدا ہوئی ہے۔جامعہ آف کیلیفورنیا، سانس فرانسسکو (UCSF) کے ڈاکٹر Shuvo Royاور ان کے ساتھیوں نے جن کا تعلق مذکورہ جامعہ کے شعبہ بایو انجینئرنگ اور علاجیاتی علوم سے ہے، نے پہلی مکمل طور پر پیوند کاری کے قا بل مصنوعی گردے تیار کر لئے ہیں جو کہ ہزاروں مائیکرو فلٹرز اور بایوری ایکٹرز پر مشتمل ہیں، یہ انسانی گردوں کے تحولی (میٹا بولک)اور پانی کے تناسب کو متوازن کرنے کے افعال کی نقل کرتے ہیں۔ تیار کئے جانے والے نظام کا جانوروں پر کامیاب تجربہ کیا گیا ہے۔
یہ مرحلہ کامیابی سے طے ہونے کے بعد پیالی کے سائز کے مصنوعی گردے تیار کر لئے گئے ہیں۔ مصنوعی گردوں کو کسی قسم کے پمپ یا بجلی کی سپلائی کی ضرورت نہیں ہوتی، کیوں کہ یہ فلٹریشن اور دوسرے افعال کے لئے انسانی خون کے دباؤ کی طاقت کو استعمال کریں گے۔
یہ کام 10تحقیقی ٹیموں کے اشتراک سے انجام دیا ہے ،جس میں کلیو لینڈ کلینک کیس ویسٹرن ریزو جامعہ،جامعہ مشی گن، اوہیو اسٹیٹ جامعہ، اور بین اسٹیٹ جامعہ کے سائنس دان اوربایو انجینئرزشامل ہیں۔ ابھی مصنوعی گردوں کو مکمل طور پر تیار ہونے اور تجارتی پیمانے پر پیش ہونے میں پانچ سال کا عرصہ لگے گا، مگر مستقبل کے لئے اُمید یں موجود ہیں۔
نینوٹیکنالوجی
گزشتہ دو دہائیوں میں سائنس کے میدان میں اہم ترین پیش رفت ’’نینوٹیکنالوجی ‘‘ کی تیاری ہے۔ اس کی غذا، پانی ،الیکٹرونکس اور دوسرے میدانوں میں بےشمار اطلاقات ہیں۔ نینوٹیکنالوجی کی مارکیٹ میں سب سے زیادہ حصہ امریکا کا (82 فی صد) ہے جب کہ اس کے بعد جاپان (42فی صد) اور یورپ کا (52 فی صد، جرمنی، فرانس اور برطانیہ)کا حصہ ہے۔ نینو مواد کی انفرادیت ان کی جسامت ہے۔
یہ عام طور پر ۱نینومیٹر (nm) اور 001 نیومیٹر سائز کے ہیں۔ ایک نینو میٹر ایک بلین کا ایک حصہ ہے۔ یہ زمین اور ماربل کے ایک ٹکڑے کی تقابلی شرح ہے۔اس میدان کا ابھار1980کی دہائی میں شروع ہوا۔ اس میدان میں پہلی ترقی1981 ء کی ابتداء میں Scanning Tunnetingمائیکرو اسکوپ سے ہوا جو ایٹمی سطح پر تصویر لے سکتی تھی۔
اس حوالے سے دوسری اہم پیش رفت 1958 ءمیں ہیری کروٹو، رچرڈ اسمائے اور رابرٹ کرل کی کاربن فٹبال کی دریافت تھی۔ ان تینوں کو مشترکہ طور پر نوبل اعزاز سے نواز اگیا۔ اس کے بعد نینو ٹیکنالوجی کے حوالے سے پیش رفت کا سلسلہ شروع ہوگیا، جس میں کاربن نینوٹیوب Thin Carbon Sheaths (گریفین) اور مختلف طریقہ کار شامل تھے جو کہ کارآمد نینو مواد کی تیاری میں استعمال کیے گئے۔
نینو مواد کی ادویات کے میدان میں اطلاق کرکے زیادہ بہتر دوائیں تیار کی جاسکتی ہیں ،کیوںکہ انسانی جسم میں زیادہ اچھی طرح جذب ہوجاتی ہیں۔ ان کا طبی تصویر سازی میں استعمال کرکے سرطان کے حامل ٹشوز کی زیادہ بہتر تصویر لی جاسکتی ہے۔ ایک خاص طریقے سے تیار کردہ (Engineered) نینو ذرّات دواؤں، حرارت، روشنی اور دوسرے مواد کو جسم کے دوسرے خلیات کو نقصان پہنچائے بغیر صرف متاثرہ خلیات تک منتقل کرسکتے ہیں۔
الیکٹرونکس کے شعبے میں ہلکی ڈسپلے اسکرین تیار کی گئی ہیں جن کو کم بجلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ نینو وائر سے لچکدار ڈسپلے پینل تیار کیے جارہے ہیں۔ high density memory chips اور بہت ہی چھوٹے ٹرانسمیٹرز کو ایک integerated سرکٹ میں تیار کیا جارہا ہے،جس کی مدد سے مزید فعال اور مستعد کمپیوٹر تیار کیے جاسکیں گے۔ مارکیٹ میں پیش کی جانے والی نینو برقیاتی مصنوعات (الیکٹرونکس) کی سرمایہ کاری4کھرب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔
فوڈ سائنس میں بھی نینو ٹیکنالوجی کے استعمال دریافت ہوئے ہیں۔ یہ غذاؤں کی پیداوار اور ان کے ذخیرے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ پلاسٹک کے ذخیرہ کرنے والے ڈبوں میں سلور نینو ذرّات شامل کردیے جاتے ہیں۔ چناں چہ ان سے ربط میں آنے والے ضرر رساں بیکٹیریا ہلاک ہوجاتے ہیں۔
زنک آکسائیڈ کے نینو ذرّات کو پیکجنگ میں استعمال ہونے والی پلاسٹک فلم میں شامل کردیا جاتا ہے، جس کے ذریعے وہ بالائے بنفشی (UV) شعاعوں کا راستہ روک دیتی ہے اور اس طرح ایک طرف تو یہ اینٹی بیکٹیریل حفاظت فراہم کرتی ہے، دوسری طرف فلم مضبوط اور پائیدار ہوجاتی ہے۔
حشرات کش ادویات میں نینو کیپسول شامل کرکے ان کا زہریلا مواد کیڑوں کے معدے کو ہی ہدف بناتا ہے، جس سے پودوں کو اور ہمیں ان ضرر رساں کیڑوں سے حفاظت میسر آتی ہے۔
ایسے نینو سینسرز تیار کیے جارہے ہیں جو ایسے انفرادی پودوں کی شناخت کرلیں گے جنہیں پانی، فرٹیلائزر یا غذائیت کی ضرورت ہوگی اور یہ حسب ضرورت ان اشیاء کے اخراج کے عمل کو بڑھا دیں گے۔ اس طرح پودے کی نمو کے عمل میں غذائیت کی پانی وجہ سے آنے والی کمی پر قابو پالیا جائے گا۔ نینوٹیکنالوجی کے دوسرے استعمالات میں نیو سیلولوز کے بنے ہوئے بلٹ پروف کاغذ شامل ہیں جو کہ اسٹیل سے زیادہ طاقتور ہیں۔
اس کے علاوہ خلائی جہاز میں نئے ہلکے وزن والے طاقتور مواد استعمال کیے جارہے ہیں اور زیادہ دیر چلنے والی بیٹریاں تیار کی جارہی ہیں۔ نینو ٹیکنالوجی کا استعمال مضبوط ہلکے وزن کے کپڑوں کی تیاری، ٹینس کے ریکٹ اور کھیلوں کے دوسرے سامان بنانے میں کیا جارہا ہے۔ نینو ٹیکنالوجی استعمال کرکے بنانے والے کپڑوں کی مارکیٹ کی قدر کا تخمینہ 115 بلین ڈالر ہے۔