تحریر: ڈاکٹر جمال حسن الحربی
گمراہ کن مہم، ان واقعات، کامیابیوں اور ترقی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہیں جو سعودی عرب ہر سطح پر حاصل کررہا ہے تاکہ من گھڑت تصاویر اور میڈیائی مواد کے ذریعے اس مقدس سر زمین کی ساکھ کو نقصان پہنچایا جا سکے، جو اسلام اور مسلمانوں کی انسانی، دینی اور سیاسی پہلوؤں میں خدمات سرانجام دیتی ہے۔یہ بات واضح ہے کہ ان کمپینز کا مقصد دشمنی پر مبنی ہے، اور اس کے پیچھے کچھ تنظیمیں، ادارے، ممالک یا افراد موجود ہیں جو سعودی عرب کے مخالف ہیں۔ لیکن الحمدللہ یہ تمام مہمات بے نقاب ہوچکی ہیں اور ان کا مقصد صاف ظاہر ہے، ان کی دلیل کمزور ہے، اور عام آدمی بھی ان کی حقیقت کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ دنیا کے مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے افراد سعودی عرب کی اصل تصویر سے بخوبی واقف ہیں، جو اسلام اور مسلمانوں کی خدمت، ان کی ترقی، اور اسلامی مسائل کے دفاع کے لیے ہمیشہ پیش پیش ہے۔مملکتِ سعودی عرب میں ہونے والی ترقی اور تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ ایسی مہمات جاری ہیں جو گمراہ کن معلومات، جعلی تصاویر، اور ایڈیٹ شدہ ویڈیوز کا سہارا لے کر سعودی عرب کی کامیابیوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتی ہیں۔ خصوصاً ریاض سیزن کے تحت ہونے والے پروگراموں اور سعودی عرب کی جنرل انٹرٹینمنٹ اتھارٹی کی کامیابیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔میں یہاں تونسی رائٹر ابو بکر الصغیر کے ذکر کردہ نکات پیش کرتا ہوں، جنہوں نے اپنے ایک مضمون میں ان مہمات کے طریقہ کار کو بے نقاب کیا, اول، یوٹیوب پر ریاض سیزن کی تقریب (تقریباً دو گھنٹے طویل) مکمل طور پر براہ راست نشر کی گئی۔ اس میں کہیں بھی کعبہ سے متعلق کوئی چیز نہیں دکھائی گئی۔دوم، ’’کعبہ‘‘ کی تصویر جعلی ہے، یہ دراصل 2023میں ہونے والے ایک باکسنگ میچ کی تصویر ہے جس میں چار اسکرینز کو ایک مکعب کی شکل میں دکھایا گیا، ان اسکرینز کو فوٹو شاپ کے ذریعے کعبہ سے مشابہہ بنانے کی کوشش کی گئی۔سوم، مجسمے اور بت فوٹو شاپ کے ذریعے شامل کیے گئے۔چہارم، کاغذی تلوار اٹھانے والی ماڈل کی تصویر نیویارک کے ایک فیشن شو کی ہے اور سعودی عرب سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔پنجم، قرآن کی آیات کے ساتھ "میٹل” گانے کی ویڈیو بھی جعلی ہے، یہ ویڈیو اصل میں 2014 میں امریکہ میں ہونے والے ایک کنسرٹ کی ہے، جس میں نہ اسلام کا ذکر ہے نہ قرآن کا،آڈیو ایڈیٹ کر کے اس میں قرآن کی آیات شامل کی گئیں۔ریاض سیزن ایک بین الاقوامی پلیٹ فارم بن چکا ہے جو عالمی ثقافتوں کو خوش آمدید کہتا ہے۔ اس کے شائقین دنیا بھر سے آتے ہیں، اور اس کے پروگرامز مقامی اور عالمی سامعین سے مخاطب ہوتے ہیں۔ یہ کھلے پن کی ایک مثال ہے جو مذہبی، ثقافتی، اقتصادی، اور سیاسی اصولوں کے دائرے میں رہتے ہوئے پیش کیا جاتا ہے۔ اس کے تمام منصوبے سعودی عرب کے متوازن وژن پر مبنی ہیں۔کیا وجہ ہے کہ سعودی عرب کی اسلامی خدمات پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی؟سعودی عرب نے حال ہی میں 11نومبر 2023 کو ایک غیر معمولی اسلامی سربراہی کانفرنس کی میزبانی کی، جو غزہ کے واقعات کے صرف ایک ماہ بعد منعقد ہوئی۔اس کے بعد، 11نومبر 2024کو دوبارہ ایک غیر معمولی عرب-اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس نے فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کے لیے بین الاقوامی حمایت میں اضافہ کیا۔2024میں ریاض میں ہونے والی اس کانفرنس نے عرب اور اسلامی کوششوں کو متحد کرنے کی ایک نئی شروعات کی۔حجاج کرام اور معتمرین کی خدمات کے حوالے سے سعودی عرب کی خدمات کا ذکر کیوں نہیں کیا جاتا؟ سعودی عرب نے وژن 2030کے تحت حج اور عمرہ کے شعبے میں زبردست ترقی کی ہے۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی قیادت میں ضیوف الرحمن کی خدمت کو ایک اہم ہدف بنایا گیا ہے، اور اس میں غیر معمولی بہتری لائی گئی ہے۔اختتام پہ، مجھے یقین ہے کہ آج کا دیکھنےاور سننے والا بہت باشعور ہے اور اس میں اتنی سمجھ بوجھ موجود ہے کہ وہ میڈیا کے جعلی اور اصلی مواد میں فرق کر سکے۔ ہمیں حقیقت کی حمایت کرنی چاہیے اور ان مہمات کے پس پردہ سازشوں کو سمجھنا چاہیے، جو سر زمین اسلام کی تصویر کو مسخ کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ مملکتِ سعودی عرب اور اس کا دارالحکومت ہمیشہ پاکیزہ اور شفاف رہے گا، چاہے گمراہ کرنے والے کتنی ہی کوشش کریں۔ ہم اپنے مخلص بھائیوں کے ساتھ ان مہمات کے خلاف ڈٹ کر کھڑے رہیں گے اور اسلام اور مسلمانوں کی خدمت میں سعودی عرب کے کردار کا دفاع کرتے رہیں گے۔