مسلم لیگ ن کی رہنما و سینیٹر سعدیہ عباسی نے سینیٹ میں آرمی ایکٹ میں ترامیم سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قرارداد کی منظوری پر سوالات اٹھا دیے۔
سینیٹ میں ڈپٹی چیئرمین مرزا آفریدی کی زیرِ صدارت اجلاس ہوا جس میں مسلم لیگ ن کی رہنما و سینیٹر سعدیہ عباسی نے کہا کہ کل سینیٹ نے آرمی ایکٹ میں ترامیم سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قرارداد منظور کی جب صرف 12 ارکان ایوان میں موجود تھے، ایجنڈے میں جو چیز شامل نہیں تھی اسے پیش کیا گیا، یہ قرارداد جمہوریت کی نفی ہے اور جمہوریت پر شب خون مارا گیا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ ایوان نے قواعد و ضوابط سے ہٹ کر جو کام کیا ہم اسے سپورٹ نہیں کرتے، ہم کسی صورت ملٹری کورٹس کی اجازت نہیں دے سکتے نہ اس کی حمایت کرتے ہیں۔
سینیٹر سعدیہ عباسی نے کہا کہ سپریم کورٹ میں جو فیصلہ کیا گیا وہ کسی جج نے اپنی ذات کےلیے نہیں کیا بلکہ پاکستان کے عوام کے مفاد میں کیا اور یہ دوسری مرتبہ ہے جب سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹس کو مسترد کیا۔
اُنہوں نے کہا کہ کل ایوان میں مارشل لاء لگانے کی قرار داد آ جائے تو کیا ملک میں مارشل لاء لگا دیا جائے گا؟
سینیٹر سعدیہ عباسی نے کہا کہ چیئرمین صاحب ایوان کو ایسےاستعمال کرنا انتہائی افسوس ناک ہے اور ایوان کو ایسے استعمال کرنے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ یہ طریقہ کار پارلیمانی روایت کی نفی کرتا ہے، موجودہ حالات میں ایسی قرارداد کی منظوری سے جمہوریت مضبوط نہیں ہو رہی ہے، یہ قرارداد واپس لیں کیونکہ یہ اس ایوان کی عکاس نہیں ہے۔
اس موقع پر سینیٹر رضا ربانی، طاہر بزنجو، تاج حیدر، مشتاق احمد خان نے بھی اس قرارداد کے خلاف نشتوں پر کھڑے ہو کر احتجاج کیا۔
سینیٹر رضا ربانی اور سینیٹر مشتاق احمد دونوں نے کہا کہ ہم اس معاملے پر بات کرنا چاہتے ہیں۔
جس پر ڈپٹی چیئرمین مرزا آفریدی نے جواب دیا کہ سینیٹ ایجنڈا مکمل کر کے میں آپ کو بات کرنے کی اجازت دیتا ہوں۔
اسی دوران جب سینیٹ میں کورم کی نشاندہی کے لیے گھنٹیاں بجائی گئیں تو کورم پورا نہ نکلا جس کے باعث اجلاس جمعے کے دن ساڑھے 10 بجے تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز سینیٹ نے آرمی ایکٹ میں ترامیم سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قرارداد کثرتِ رائے سے منظور کی تھی۔
قرارداد کے متن میں کہا گیا کہ جب تک لارجر بینچ اس کا جائزہ نہ لے فیصلے پر عمل نہ کیا جائے۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ بینچ کا فیصلہ اتفاقِ رائے سے نہیں، قانونی ابہام ہے، لارجر بینچ اس کا جائزہ لے، فیصلے پر نظرِ ثانی کی جائے، ملٹری کورٹس کے خلاف فیصلے سے دہشت گردی کو فروغ ملے گا۔
قرارداد میں یہ بھی کہا گیا کہ 9 مئی کے واقعے میں ملوث افراد کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل کیا جائے، پارلیمنٹ نے ملٹری کورٹ کی اجازت دی تھی، فیصلہ پارلیمنٹ کے اختیارات میں مداخلت ہے۔