پشاور ہائی کورٹ نے تحریکِ انصاف کو اداروں پر تنقید نہ کرنے کی ہدایت کردی۔
پشاور ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی ورکرزکنونشن کی اجازت نہ دینے کے خلاف توہینِ عدالت کے کیس کی جسٹس اعجاز انور نے سماعت کی۔
دورانِ سماعت ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ جلسے اور جلوسوں سے متعلق اجلاس ہو چکا ہے، ڈپٹی کمشنرز، ڈی پی اوز نے اجلاس میں شرکت کی ہے، ایڈووکیٹ جنرل عدالت میں رپورٹ پیش کریں گے۔
سماعت کے دوران درخواست گزار، پی ٹی آئی کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ کل پی ٹی آئی ورکرزکنونشن ہے، اس سے متعلق ہمیں آگاہ کریں۔
جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ اجلاس کے منٹس آجائیں تو وقفے کے بعد کیس کو سنیں گے۔
بعد ازاں عدالت نے سماعت میں وقفہ کر دیا۔
وقفے کے بعد کی کرروائی
سماعت میں وقفے کے بعد ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سیاسی جلسوں کے بارے میں ڈپٹی کمشنرز اور ڈی پی اوز کا اجلاس ہوا ہے، اجلاس میں کنوینشن اور جلسوں کے لیے ایس او پیز تیار کیے گئے ہیں، جلسوں کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو پہلے درخواست دینا ہوگی، سیاسی جماعتیں ایس او پیز کے مطابق جلسے، کنونشن کر سکتے ہیں۔
اس پر جسٹس اعجاز انور نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اب الیکشن ہو رہے ہیں سب کو ایک یکساں مواقع دینا چاہیے۔
دورانِ سماعت درخواست گزار، پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ حلفاً کہتا ہوں کہ درخواست کے باوجود ہمیں اجازت نہیں دیں گے، کل بھی پشاور میں جماعت اسلامی نے بڑا جلسہ کیا۔
سماعت کے دوران جسٹس اعجاز انور نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ باقی سیاسی جماعتیں جلسے کر رہی ہیں ایک پارٹی پر پابندی ہے، باقی سیاسی جماعتیں جلسے کررہی ہیں ڈپٹی کمشنرز کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، جب ایک پارٹی درخواست دیتی ہے تو پھر دفعہ 144 دپٹی کمشنر کو یاد آجاتی ہے جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ رپورٹ ہے کہ بعض سیاسی پارٹیز اور رہنماؤں کو سیریس تھریٹس ہیں۔
اس پر جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ الیکشن پر امن طریقے سے ہو جائے، 15 دن میں کتنے جلسے ہوئے لیکن آپ ایک سیاسی جماعت کے پیچھے پڑے ہو، سڑک پر کسی بھی سیاسی پارٹی کو اجازت دی گئی تو ڈی سی کے خلاف کارروائی ہوگی۔
سماعت کے دوران جسٹس اعجاز انور نے وکیل پی ٹی آئی کو ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ آپ ایس او پیز کے مطابق درخواست دیں اور اداروں پر اتنی تنقید نہ کریں۔
بعد ازاں عدالت نے سماعت 29 نومبر تک ملتوی کردی۔