سپریم کورٹ آف پاکستان نے صحافیوں کو ایف آئی اے کے نوٹسز کے خلاف درخواست پر سماعت کرتے ہوئے میڈیا ریگولیشن پٹیشن کے درخواست گزار صحافیوں کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ حیدر وحید والی درخواست کا کوئی پٹیشنر عدالت میں ہے؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلا لیا اور ان سے استفسار کیا کہ کیا ایسی درخواست عدالت کا غلط استعمال نہیں؟
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ بالکل یہ پراسس کا غلط استعمال ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا ایسی درخواستیں عدلیہ کی آزادی یقینی بناتی ہیں یا اسے کم کرتی ہیں؟ اس پٹیشن کے تمام درخواست گزاروں کو نوٹس کر کے طلب کیوں نہ کریں؟
اس موقع پر اٹارنی جنرل نے درخواست گزاروں کو نوٹس کرنے کی حمایت کی۔
بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ حیدر وحید میڈیا ریگولیشن سے متعلق اپنی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ حیدر وحید کورٹ اٹینڈ کرنے بھی نہیں آئے، ان کی پٹیشن آزادیٔ اظہار کو یقینی بناتی یا مزید روکتی ہے؟ 2022ء سے یہ درخواست کس بنیاد پر دائر تھی، کیا ان کا مقصد پورا ہو گیا؟ درخواست گزاروں میں کوئی چکوال کا تھا کوئی اسلام آباد کا، کون سا مشترکہ مفاد تھا جو ان درخواست گزاروں کو ساتھ لایا تھا؟ میڈیا میں بڑی منتخب رپورٹنگ ہوتی ہے، اب یہ رپورٹ نہیں ہو گا کہ یہ 6 درخواست گزار غائب ہو گئے، اسی لیے ہم نے کہا کہ ہم اپنا یو ٹیوب چینل چلائیں گے۔
اس کے ساتھ ہی چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھوانا شروع کر دیا۔
انہوں نے حکم نامے میں کہا کہ میڈیا ریگولیشن سے متعلق پٹیشن واپس لینے کی درخواست آئی، نہ پٹیشن کے درخواست گزار عدالت آئے نہ وکیل، نہ ہی ایڈووکیٹ آن ریکارڈ، درخواست میں کہا گیا کہ اب وفاقی حکومت میڈیا ریگولیشن کا معاملہ خود دیکھ رہی ہے، اٹارنی جنرل نے حکومت سے منسوب اس بات کی تردید کی۔
صحافیوں کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے اس موقع پر مؤقف اختیار کیا کہ عوامی مفاد کی درخواست واپس نہیں ہو سکتی، آرمی چیف کی توسیع سے متعلق ریاض حنیف راہی والی درخواست بھی واپس نہیں لینے دی گئی تھی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ آپ کی ان لوگوں سے آؤٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ تو نہیں ہو گئی؟
صحافیوں کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے جواب دیا کہ میرے مؤکل ایک صحافتی باڈی ہیں، ایسی سیٹلمنٹ کے وسائل نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ضروری نہیں پیسے ہی ہوں، یہ بھی ہو سکتا ہے کہا گیا ہو کہ آئندہ میری خبر اچھی چھاپ دینا۔
سپریم کورٹ نے میڈیا ریگولیشن والی پٹیشن کے درخواست گزاروں کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا اور درخواست گزاروں کو نوٹس جاری کر دیا۔
دوران سماعت بیرسٹر صلاح الدین نے مطیع اللّٰہ جان کیس کا حوالہ دیا۔
جس پر چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر میں ایک کیس کو اوپن اینڈ شٹ کہوں تو وہ مطیع اللّٰہ جان کیس ہے، آپ کے پاس اس واقعے کی ویڈیو ہے، حکومت اخبار میں اشتہار کیوں نہیں دیتی کہ ان لوگوں کی تلاش ہے؟ اگر کچھ نہیں کرتے تو ایسا آرڈر آئے گا جو آپ کو پسند نہیں آئے گا، اگلے دن میری اہلیہ کے بارے میں غلط خبر چل گئی، کہا گیا کہ میری اہلیہ فل کورٹ میٹنگ میں میرے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں، کیا ہم سارا دن بیٹھ کر وضاحتیں جاری کرتے رہیں؟ کہا جائے گا کہ چیف جسٹس کی وائف نے تو تردید جاری نہیں کی، کیا تاثر جائے گا اس خبر سے کہ چیف جسٹس کی اہلیہ آفیشل میٹنگ میں بیٹھی تھیں؟ ایسی خبر چلانے والوں کو کیا توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کریں؟ کیا فردِ جرم عائد کر کے انہیں جیل بھیجیں؟ اپنے تھمب نیل اور اپنی خبر میں انہوں نے یہی کہہ دیا، کیا زیادہ ری ٹویٹس، لائیکس سے پیسے کمائے جا رہے ہیں؟ کسی صحافی پر جھوٹ بولنا ثابت ہو جائے تو کیا اس کی ممبر شپ ختم کریں گے؟
بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ وارننگ دے کر، شوکاز کر کے ممبر شپ ختم کر سکتے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس سے کیا ہو جائے گا؟ آپ آفیسر آف کورٹ ہیں حل بتائیں۔
بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ ہتکِ عزت کا قانون پاکستان میں اتنا مضبوط نہیں اس لیے یہ سب ہوتا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا صحافیوں نے اپنے ممبر کے خلاف کارروائی کی؟ یہ سب ٹریڈ یونین بن گئی ہیں، ہم نے تو آپ کو اپنے ادارے میں کر کے دکھایا، آپ بھی کر کے دکھائیں ناں، جو جتنا زیادہ جھوٹ بولے گا اتنا ہی سوشل میڈیا پر بکے گا، جھوٹے تبصرے کر کے ڈالر کمائے جاتے ہیں، کیا ہم جھوٹ پھیلانے والوں کو جیل بھیج دیں؟ کیا پیسے کمانے کے لیے ایسی خبریں خود سے تیار کی جاتی ہیں؟ کوئی صحافی اپنی خبر میں جھوٹا ثابت ہو تو اس کے خلاف کیا کارروائی ہوتی ہے؟
بیرسٹر صلاح الدین نے جواب دیا کہ برطانیہ میں ہتکِ عزت کا قانون بہت مضبوط ہے، وہاں پاکستانی چینلز بھاری جرمانوں کے سبب نشریات جاری نہیں رکھ سکتے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اب اگر کسی کو نوٹس جاری کر کے طلب کریں تو سارے ہمارے سامنے کھڑے ہو جائیں گے، وہ معاشرے ترقی کرتے ہیں جہاں اداروں میں اندرونی احتساب ہو، ہم نے تو اپنا احتساب کر کے دکھایا۔
سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی اور فریقین سے تحریری دلائل بھی طلب کر لیے۔