فلسطینی نژاد امریکی ڈاکٹر صدر جو بائیڈن کے ساتھ منگل کی شام کو ہونے والی میٹنگ سے واک آؤٹ کر گئے۔
یاد رہے کہ اسرائیل اور حماس کی جنگ کے دوران عرب، فلسطینی اور مسلم امریکی کمیونٹیز شدید تناؤ میں ہیں اور غصے اور تشویش کا اظہار کر رہی ہیں۔
شکاگو سے تعلق رکھنے والے معالج ڈاکٹر طہیر احمد نے اس سال کے اوائل میں غزہ کا سفر کیا تھا۔
ان سے متعلق امریکی میڈیا ’سی این این‘ نے آگاہ کیا کہ وہ اچانک میٹنگ چھوڑ کر چلے گئے جس میں نائب صدر کملا ہیرس، قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان، انتظامیہ کے دیگر اہلکار اور مسلم کمیونٹی کے رہنماؤں کا ایک چھوٹا گروپ شامل تھا۔
دوسری جانب صدر جو بائیڈن کو گزشتہ کئی مہینوں کے دوران عوامی تقریبات میں اکثر احتجاج اور منفی نعروں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
سی این این کے مطابق فلسطینی نژاد امریکی معالج، طہیر احمد کا اجلاس چھوڑنے کا فیصلہ حماس کے 7 اکتوبر کے حملے کے بعد، غزہ میں اسرائیل کی مہم شروع ہونے کے بعد سے صدر جو بائیڈن کے لیے اب تک کا سب سے بڑا احتجاج ہے۔
سی این این نے اس میٹنگ سے متعلق پہلے اطلاع دی تھی کہ رمضان کے دوران جو افطار ڈنر ہونا چاہیے تھا اسے میٹنگ میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
سی این این نے رپورٹ کیا تھا کہ افطار ڈنر کے شرکاء فلسطین میں لگی آگ اور غزہ میں لاکھوں افراد کے قحط کے دہانے پر کھڑے ہونے کے دوران پرتعیش کھانا کھانے میں خود کو پرسکون محسوس نہیں کر رہے ہیں۔
طہیر احمد نے صدر جو بائیڈن کے میٹنگ میں پہنچنے سے قبل ہی واک آؤٹ کرنا مناسب سمجھا۔
اُنہوں نے جانے سے قبل اپنے پیغام میں کہا کہ یہ مایوس کن ہے کہ میں یہاں واحد فلسطینی ہوں اور اپنی برادری کے احترام کے پیش نظر میں یہاں سے جا رہا ہوں۔
طہیر احمد نے میٹنگ سے واک آؤٹ کر جانے سے قبل صدر جو بائیڈن کے لیے رفح میں رہنے والی ایک آٹھ سالہ یتیم بچی، حدیل کا ایک خط بھی چھوڑا تھا۔