ملکی تاریخ کے سب سے بڑے الیکشن کیلئے پولنگ کا وقت ختم ہوچکا ہے اور جلد ہی ووٹ شماری اور پھر اس کے بعد نتائج نشر کرنے کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ ایسے میں یہ سوال اہم ہے اور ہر شہری کے ذہن میں موجود ہے کہ ان کے ووٹوں کے نتیجے میں ملک کی حکمرانی کی مسند پر کون بیٹھے گا؟ملک میں رائج پارلیمانی جمہوری نظام میں الیکشن کے عمل کا اختتام وزارت عظمیٰ کی مسند کیلئے موزوں امیدوار کے انتخاب پر ہوتا ہے، چنانچہ تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے اس مسند کیلئے اپنے امیدوار ڈیکلیئر کر دیے ہیں، تاہم الیکشن کے نتائج مکمل سامنے آنے کے بعد ہی حتمی طور پر واضح ہوگا کہ یہ فیصلہ کرنے کا حق کس جماعت کو ہے؟اس وقت دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے وزارت عظمیٰ کے امیدواروں کے نام سامنے آچکے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے الیکشن مہم کے آغاز میں ہی آفیشلی اپنے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار نامزد کردیا تھا۔
دوسری طرف تین مرتبہ پہلے وزیر اعظم رہنے والے میاں محمد نواز شریف پاکستان مسلم لیگ ن کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار سمجھے جا رہے ہیں۔ اگرچہ مسلم لیگ ن کی جانب سے رسمی طور پر اب تک میاں نواز شریف یا کسی اور کو وزارت عظمیٰ کے امیدوار کی حیثیت سے نامزد نہیں کیا ہے۔پولنگ کے دوران سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے کو چیئرمین آصف علی زرداری نے بڑے تیقن کے ساتھ یہ دعویٰ کیا ہے کہ ان کی پارٹی ملک بھر سے کلین سوئپ کرے گی.ان کا یہ دعویٰ کس حد تک درست ہے یہ بہت جلد واضح ہوجائے گا، تاہم پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کرلی تو بلاول بھٹو کے وزیراعظم بننے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔
دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ ن بھی بہت پر امید ہے، بطور خاص اپنی سب سے بڑی حریف پی ٹی آئی کے الیکشن سے باہر ہونے کے بعد ن لیگ کو حکومت سازی کیلئے لیڈنگ پوزیشن پر پہنچنے کا یقین ہے، ایسی صورت میں میاں نواز شریف کو چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بننے سے کوئی نہیں روک پائے گا۔
یہ واضح ہے کہ ملک کی انتخابی سیاست میں صوبہ پنجاب کو ہمیشہ سے کنگ میکر کا درجہ حاصل رہا ہے. اس بار بھی وزارت عظمیٰ کا ہما اسی کے سر پر سجے گا جو پنجاب سے قومی اسمبلی کی سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کرے گا۔ن لیگ پنجاب میں اکثریت حاصل کرنے کیلئے پر امید ہے، الیکشن مہم کے دوران بھی ن لیگ نے اپنی تمام تر توجہ پنجاب پر ہی مرکوز کیے رکھی. ن لیگ کے جلسے بھی بھرپور رہے. جس سے سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ن لیگ پنجاب میں سنگل لارجسٹ پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔انتخابی میدان میں اس وقت یہی دو بڑی پارٹیاں اور ان کے ہیوی ویٹ رہنما ہی زیر بحث ہیں، تاہم ایک تیسری جماعت پاکستان تحریک انصاف ایسی ہے جو بطور جماعت اگرچہ الیکشن کے منظر نامے سے باہر ہے مگر عوامی مقبولیت میں سب سے آگے ہے۔آثار سے واضح تھا کہ پی ٹی آئی کو اگر الیکشن سے باہر نہ کیا جاتا تو اسے سنگل لارجسٹ پوزیشن لینے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا. پی ٹی آئی بطور جماعت الیکشن سے باہر نہ ہوتی تو سابق وزیر اعظم عمران خان جیل میں رہتے ہوئے بھی وزارت عظمیٰ کے سب سے مضبوط امیدوار ہوتے۔